مکر سے بچو

اور انھوں نے بڑے بڑے مکر و فریب کئے۔ (سورۂ نوح۔۲۲)
یہ رئیس لوگ خود ہی گمراہ اور بدکار نہ تھے، بلکہ وہ اس کوشش میں لگے رہتے کہ عوام بھی حضرت نوح علیہ السلام سے برگشتہ رہیں اور ان کے دین کو قبول نہ کریں۔ انھیں یہ فکر دامن گیر تھا کہ اگر عوام نے حضرت نوح علیہ السلام کے دین کو قبول کرلیا تو ان کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ ان کمزوروں اور ضعیفوں کا اگر شعور بیدار ہو گیا اور خدا کے ساتھ ان کا رابطہ قائم ہو گیا تو وہ ان کی غلامی کا طوق اتارکر دور پھینک دیں گے۔ اس خطرہ کے سدباب کے لئے وہ ہر قسم کے مکر و فریب سے کام لیتے، ایسی ایسی چالیں چلتے کہ بھلے چنگے سمجھدار لوگ بھی پھنس جاتے۔ کبھی کہتے نوح علیہ السلام ہماری ہی طرح ایک بشر ہیں، ان پر کیسے وحی نازل ہوگی (سورۃ الاعراف۔۹۳)

کبھی کہتے ان کے مرید رذیل قسم کے لوگ ہیں، کوئی کام کا آدمی تو ان کے ہاں نظر نہیں آتا، کیا قوم کے بڑے بڑے رئیس، تاجر اور چودھری، سب احمق ہیں اور یہ کمیّ لوگ ہی اتنے سیانے واقع ہوئے ہیں کہ انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کرلیا (سورۂ ہود۔۲۷) کبھی کہتے اگر اللہ تعالی کو کسی کو نبی بنانا ہوتا توکسی معصوم فرشتے کو بناتا (سورۃ المؤمنون۔۲۴) کبھی کہتے کہ نوح علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ محض اپنی ریاست قائم کرنے کے لئے اور تمہارا لیڈر بننے کے لئے کیا (سورۃ المؤمنون۔۲۴) یہ اور اس قسم کی کئی بے سروپا باتیں وہ بڑے جوش و خروش سے کیا کرتے اور اکثر لوگ ان کے اس دام فریب میں پھنس جاتے۔ (قرطبی)