موٹاپے سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات ضروری

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام کے موٹاپے پر قابو پانا چاہتی ہیں تو انہیں ’فاسٹ فوڈ‘ پر ٹیکس کے نفاذ جیسے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔
بین الاقوامی محققین کا، جن کے مضامین ’دی لینسٹ‘ نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں، کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ابھی اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگوں کے لئے صحتمندانہ طرزِ زندگی اپنانا مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ان کے مطابق ذیابیطس اور موٹاپے سے متعلقہ دیگر بیماریوں پر بیشتر ممالک میں صحتِ عامہ کے بجٹ کا دو سے چھ فیصد خرچ ہو رہا ہے اور اگر حالات میں تبدیلی نہ لائی گئی تو یہ اخراجات مزید بڑھ سکتے ہیں۔
محققین نے امریکہ اور برطانیہ کے لیے اپنی پیشنگوئیاں بھی شائع کی ہیں۔ یہ دونوں ممالک ترقی یافتہ دنیا میں موٹاپے کے مسئلے سے سب سے زیادہ دوچار ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں آبادی میں موٹاپے کی شرح سنہ 2030 تک پچیس فیصد سے بڑھ کر چالیس فیصد تک جا پہنچے گی۔ اس کی وجہ سے این ایچ ایس پر سالانہ دو ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑے گا جو صحت کے بجٹ کا دو فیصد ہے۔
امریکہ میں اخراجات میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گا جہاں اس وقت تک ہر دوسرا شخص موٹاپے کا شکار ہو گا۔
اس وقت امریکہ میں یہ شرح تینتیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔محققین نے تسلیم کیا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے معاشرے میں ایک فرد سے لے کر صنعتوں تک سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔تاہم انہوں نے کہا ہے کہ حکومتوں کو اس سلسلے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے قانون سازی کرنی چاہیے اور بہتر ماحول کے لئے  براہِ راست اقدام کرنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں غیر صحتمند خوراک پر ٹیکس کے نفاذ، فاسٹ فوڈ کے اشتہارات پر پابندی اور اسکولوں میں آگاہی کے پروگرام جیسے اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں اور ان اقدامات سے نہ صرف اخراجات میں کمی ہوگی بلکہ لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوگی۔
موٹاپا کم کرو پیسے کماؤ
امریکہ کی ایک تہائی کمپنیاں اپنے موٹے ملازمین کو وزن کم کرنے کیلئے یا تو مالی پیشکش کررہی ہیں یا پھر ایسی ہی پیشکش کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔امریکہ کی پینسلوینیا یونیورسٹی کے شعبہ ’ہیلتھ انسینٹیوز‘ یعنی ترغیبات برائے صحت کے ڈائریکٹر کیون وولپ کے مطابق اس معاملے پر کمپنیوں میں بہت زیادہ آگہی آئی ہے اور وہ اس میں دلچسپی لے رہی ہیں۔اس حوالے سے اوہائیو ہیلتھ نامی امریکی ہسپتالوں کی ایک چین نے، جس کے زیادہ تر ملازمین زائد وزن کے حامل ہیں ایک پروگرام متعارف کرایا ہے۔ اس پروگرام میں وہ اپنے کارکنان کو پیڈو میٹر پہننے پر پیسے ادا کریں گے۔دراصل پیڈو میٹر اس فاصلے کی پیمائش کرتا ہے جو کوئی بھی فرد پیدل طے کرتا ہے۔ لہذا جتنا زیادہ کوئی کارکن پیدل سفر کرے گا اتنے ہی زیادہ اسے پیسے ملیں گے۔ اس پروگرام کے مطابق کوئی بھی کارکن سال بھر میں پیدل سفر کرکے 500 امریکی ڈالر تک کما سکتا ہے۔
اوہائیو ہیلتھ نامی اس ادارے کے پانچ بڑے ہسپتالوں کے کل نو ہزار میں سے نصف سے زائد اب تک اس معاہدے پر دستخط کرچکے ہیں۔ جبکہ اب تک تین لاکھ 77 ہزار ڈالر سے زائد رقم پیدل چلنے والے کارکنان کو انعام کے طور پر تقسیم کی جاچکی ہے کیونکہ بہت سے کارکنان کو وزن کم ہوجانے کی وجہ سے نئے ملبوسات کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔