مولانا آزاد کا تعلیمی مشن اور ہمارا تعلیمی نظام

مولانا کی پوری زندگی ملک اورملت کے لئے جدوجہد سے عبارت ہے‘ ملک کی آزادی کے بعد آپ کو تعلیمی وزرات کا قلم دان سونپا گیا۔

مولانا ابولکلام آزاد کی ذات جامع الصفات تھی۔ مولانا عالم دین‘ مفکر اسلام
صاحب طرز انشا پرواز‘ مصلح قو ‘ بیدار مغز‘ سیاسی رہنما‘ مجاہد آزادی ‘ دانشوار تھے

۔سال1888میں 11نومبر کے روز مکہ معظمہ میں مولانا آزاد کی پیدائش ہوئی۔ مولانا کی پوری زندگی ملت وملت کے جدوجہد سے عبارت ہے۔ ملک کی آزادیکے بعد آپ کو تعلیمی وزرات کا قلم دان سونپا گیا۔

آپ نے گیارہ سال دووزارت میں ناقابل فراموش کارنامے انجامدئے ۔ آپ نے چھ سال سے 14تک بچوں کی تعلیم کو مفت او رلازمی قراردیا۔

آپ ہی کی وزرات میں یوجی سی کا قیام عمل میں آیا۔سائنس او رٹکنالوجی کی تعلیم کے لئے ائی ائی ٹی او رائی ائی ایم قائم کئے گئے۔

مولانا کے تعلیمی منصوبے اور تجاویز آج بھی اہمیت کے حامل ہیں مگر ان پر ایمان داری کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے۔نومبر 11کے روز ان کی تعلیمی اور رفاہی خدمات کے اعتراف میں سرکاری اور غیر سرکاری طور پر یوم تعلیم منایاجاتا ہے۔

مولانا آزاد تعلیم کے سفیر تھے۔ان کی نظر میں تعلیم ہی مسائل کا واحد حل تھی۔ وہ بھی جانتے تھے کہ کسی ملک اور قوم کی تقدید اور تصویر تعلیم سے ہی بدلی جاسکتی ہے۔ یوم تعلیم کے موقع پر زیر نظر مضمون میں ملت کی موجودہ تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیاگیااور حل کی تدبیریں پیش کی گئی ہیں۔

ملک کی تعلیمی صورت حال ملک کے مختلف حصوں میں الگ الگ ہے ۔ جنوب کی ریاستوں میں تعلیمی صورت حال بہتر ہے بمقابلہ شمال کے شمال میں بھی اترپردیش‘ بہار‘ بنگال او رآسام کی صورت حال بہت خراب ہے۔

ملک کے ہر باشعور فرد اپنے آس پاس کے ماحول کو دیکھ کر ہی ملت کی تعلیمی صورت حال کا اندازہ لگاسکتا ہے اور ہمیں اپنے آس پاس کا ہی جائزہ لینا چاہئے کیونکہ وہیں ہمیں کام کرنا ہے۔

البتہ یہ بات لائق اطمینان ہے کہ ملت میں تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے بہت سے نیک دل افراد آگے آرہے ہیں او ربعض ادارے بہت اچھاکام کررہے ہیں۔

کیرالا میں مسلم ایجوکیشن سوسائٹی ‘ کرناٹک اور جنوب کی ریاستوں میں الامین سوسائٹی ‘ بنگلور ‘ مغربی بنگال میں الامین مشن وغیر ہ تعلیم کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پہلے کے مقابلے تعلیم حاصل کرنے کی طرف رحجان بڑھا ہے۔

لیکن یہ افرا ‘ یہ ادارے اور رحجان ملت کی آبادی کے تناسب سے آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اپنے آپ محلے بستے اور شہر کاجائزہ لیں گے تو پائیں گے کہ چالیس سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں اپنا نام لکھنے والوں کی تعداد دس فیصد ہے۔

البتہ نئی نسل یعنی پندرہ سے چالیس تک کے افراد میں یہ شرح کچھ بہتر ہے۔ آج ہمارا مسئلہ اب ناخواندگی کم اور تعلیم کو اس کے تقاضوں سے حاصل کرنا زیادہ ہے۔

آج ہمارے بچے پڑھتے ہیں اور پاس بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے نمبر بہت کم رہتے ہیں جس کی وجہہ سے بہت سے کورسیز میں داخلہ کے لئے اہل ثابت نہیں ہوتے اور ساری محنت ڈوب جاتی ہے۔

مسلمانوں نے بھی جب علم کی شمع روشن رکھاتو وہ علاقوں پر علاقے فتح کرتے چلے گئے اور آدھی سے زیادہ دنیا پر حکمرانی کرنے لگے۔ مسلمانوں کا دراصل وہ زریں دور تھا جس میں ادبا ‘ شعرا‘ طبا ء وسائنس داں ‘ ریاضی داں ‘ ووجغرافیہ داں پیدا ہوئے ۔

آلات موسیقی سے لے کر آلات حرب وضرب تک او رمعلولی استعمال کی اشیاء سے لے کر آلات طب وجراحت تک مسلمانوں نے ایجاد کیے اور ایک خلقت کے لئے نفع بخش بنے رہے۔ نفع رسانی خلق کا ہی نتیجہ تھا کہ اللہ نے انہیں اقوام عالم کا امام بنائے رکھا۔

مگر جب کتاب طاق کی زینت بن گئی او رقلم پھینک دئے گئے ۔ائے میری قوم کے نوجوانوں اٹھو او رجہالت کے اندھیروں سے کمر بستہ ہوجاؤ۔ تم جو کچھ جانتے ہودوسروں کا سیکھاؤ۔ جو تم نہیں جانتے وہ دوسروں سے سیکھ لو۔ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے لئے وقف کردو۔