مودی ‘ شاہ کو اڈوانی کی سرزنش

مودی ‘ شاہ کو اڈوانی کی سرزنش
بالآخر ایل کے اڈوانی نے اپنی زبان کھولی ہے اور عملا انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کی سرزنش کردی ہے ۔ ان کی بالواسطہ سرزنش اور طنز کو ایسا لگتا ہے کہ مودی سمجھنے سے بھی قاصر ہیں اور شائد یہی وجہ رہی ہے کہ انہوں نے اڈوانی کے بلاگ کے کچھ ہی گھنٹوں میں ان کی ستائش شروع کردی ۔ یہ مودی کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے ۔ اڈوانی کا کہنا تھا کہ جو لوگ بی جے پی کی سیاسی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے خیال سے اتفاق نہیں کرتے وہ قوم مخالف نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی بی جے پی نے انہیں قوم مخالف سمجھا تھا ۔ ایل کے اڈوانی کا یہ بیان اس تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ عرصہ میں نریندر مودی اور امیت شاہ نے یہ عادت بنالی ہے کہ وہ ہر اس جماعت اور ہر اس شخص کو قوم مخالف قرار دینے پر اتر آئے ہیں جو بی جے پی سے اتفاق نہیں کرتے اور حکومت سے سوال کرنے کی جراء ت کرتے ہیں۔ نہ صرف نریندر مودی اور امیت شاہ بلکہ بی جے پی کے تقریبا تمام درجہ کے قائدین اپوزیشن جماعتوں کو اور اپوزیشن قائدین کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں اور ان کے سوال کرنے پر چراغ پا ہونے لگے ہیں۔ ہر جلسہ میں دہشت گردوں کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی کے تقریبا تمام قائدین اپوزیشن کو قوم مخالف قرار دیتے جارہے ہیں۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان لوگوںنے ملک کی سلامتی کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بی جے پی کے یہ الزامات انتخابی مہم کا اصل جز بن گئے ہیں اور ان ہی خطوط پر ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی جمہوریت دنیا بھر میں مثالی ہے اور یہاںاختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ہمارے سامنے خود بی جے پی کے سینئر قائدین اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی و دوسروں کی مثالیں موجود ہیں۔ ان قائدین نے بھی کانگریس کی شدت سے مخالفت کی تھی لیکن کبھی بی جے پی سے اختلاف رکھنے والوں کو قوم دشمن قرار نہیں دیا تھا ۔ اب بی جے پی تقریبا ہر اختلاف رائے رکھنے والے کو قوم مخالف قرار دینے میں جٹی ہوئی ہے اور شائد اسی بات کو ایل کے اڈوانی نے اپنے بلاگ میں واضح کرنے کی کوشش کی تھی ۔
اڈوانی کا یہ تبصرہ اس تناظر میں اہمیت کا حامل ہوگیا ہے ۔ آج ملک کے داخلی حالات اس حد تک ابتر ہوگئے ہیں کہ خود بی جے پی میں داخلی جمہوریت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ بی جے پی کی صفوں میں بھی کئی قائدین اپنے آپ میں بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ وہ گھٹن کا شکار ہیں لیکن امیت شاہ اور نریندر مودی کے خوف سے وہ زبان کھولنے میں عار محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے جذبات و احساسات کو ایل کے اڈوانی نے اپنے بلاگ کے ذریعہ زبان دینے کی کوشش کی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایل کے اڈوانی اب اپنی عمر کے 91 ویں سال میں سیاسی ثمرات سے محروم ہونے کے بعد حقیقت کو منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایل کے اڈوانی کو بھی بی جے پی نے گاندھی نگر سے لوک سبھا ٹکٹ سے محروم کردیا ہے ۔ مرلی منوہر جوشی بھی ٹکٹ سے محروم ہیں۔ یہ پارٹی کے سینئر قائدین ہیں اور پارٹی کے بانیوں میں شامل ہیں۔ بی جے پی میں داخلی آمریت کا اندازہ خود اس حقیقت سے لگ جائیگا کہ اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو حاشیہ پر کردیا گیا ہے اور یہ لوگ اپنے حلقہ لوک سبھا کا ٹکٹ تک حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ اڈوانی کے حلقہ سے امیت شاہ کو انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کا موقع دیا جا رہا ہے اور آج ہی یہ واضح ہوا ہے کہ لوک سبھا کی سبکدوش ہونے والی اسپیکر سمترا مہاجن نے بھی ٹکٹ کے تعلق سے قیاس آرائیوں کے بعد مقابلہ نہ کرنے کا اعلان کردیا ۔
ایل کے اڈوانی نے جیسے ہی ملک میں ہر ایک کو قوم مخالف قرار دینے کی روایت پر اپنے انداز میںطنز کیا اور عملا مودی اور امیت شاہ کی سرزنش کی نریندر مودی فوری حرکت میں آگئے ۔ انہوں نے اس طنز کو محسوس تک کرنا ضروری نہیں سمجھا اور کہہ دیا کہ اڈوانی نے بی جے پی کے حقیقی مزاج کو پیش کیا ہے ۔ اس حقیقی مزاج کو خود مودی اور امیت شاہ نے کہیں دفن کردیا ہے اور یہ اپنی اجارہ داری اور آمرانہ روش کو ہی آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب اڈوانی نے اس تعلق سے آواز اٹھائی ہے تو کل کئی اور گوشوں سے بھی اس تعلق سے آوازیں اٹھنے لگیں گی ۔ اس سے قبل ہی مودی ۔ شاہ کی جوڑی کو اپنی روش بدلنی چاہئے ۔