موجودہ دور کا فتنہ ،ٹی وی سیریلز

میڈیا کے اس دور نے قوموں اور ملکوں کو قریب سے قریب تر کردیا ہے ۔ انسان تمام ملکوں کی سیر گھر بیٹھے کرلیتا ہے اسی کو’’ گلوبل ویلیج‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ ہر دور میں انسان نے ترقی کے مدارج طئے کئے ہیں ہر آنیو الا زمانہ اپنے اندر کچھ نہ کچھ نئی ایجادات لے کر آتا ہے ۔ کیا واقعی موجودہ دور ترقی یافتہ کہلانے کے قابل ہے ؟ اگر مادی ترقی ہی سب کچھ ہوتی تو پھر آج کے انسان پر سکون ہوتے! لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ ڈپریشن کا شکار بھی اسی ترقی یافتہ دور کا انسان ہے ۔ہر ایک بے قرار اور پریشان نظر آتا ہے ۔ کوئی بچوں کی پریشانی کا رونا روتا ہے تو کوئی دوسرے لوگوں کی بے اعتمادی سے پریشان ہے کسی کی بیوی شوہر کی بے اعتنائی کا شکوہ کرتی ہے تو کوئی شوہر بیوی کی مصروفیات کا شکوہ کرتا ہے ۔

کہیں بوڑھے والدین اولاد کی ان کیلئے بے توجہی پر آنسو بہاتے ہیں گھر کے افراد کا گھر کے ہی افراد سے شکوہ اب عام بات ہوتی جارہی ہے۔آحر اس کی کیا وجہ ہے ؟اسلام وہ واحد دین ہے جو ایسے بنیادی اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے جن پر چل کر انسان کی دینی و دنیاوی زندگی میں اطمینان میسر آتا ہے ۔ آج اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ جس چیز میں ہم منہمک ہیں وہ ہے میڈیا۔ چاہے وہ نیوز چینل ہو یا ٹی وی سیریل ۔ عام مسلم گھرانوں کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر لوگ اس لعنت کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر ان ڈراموں کی کشش انہیں اس سے پیچھا نہیں چھڑانے دیتی ۔ ہم غیر محسوس طریقوں کو اپنے گھرمیں لا رہے ہیں جن کے منفی اثرات ہمارے گھروں میں باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں ۔ مسلم خواتین جن پر پوری نسل کو سنوارنے کی عظیم ذمہ داری ہے وہ ان سیریلس میں منہمک ہو جائیں تو صالح تربیت کا عظیم کام کون انجام دے گا ۔ بچوں کی صحیح اسلامی تربیت کیسے ممکن ہوگی ؟ظاہر سی بات ہے کہ بچے وہی سیکھیں گے جو دیکھتے اور سنتے ہیں ۔ٹی وی سیریلس کی بدولت زوجین کے تعلقات میں بگاڑ ،ان ٹی وی سیریلس میں جو چیز سب سے برے طریقے سے بتائی جاتی ہے وہ ہے میاں بیوی کے تعلقات ۔ جب ہماری خواتین دن رات وہی سیریلس دیکھتی رہیں گی تو نتیجتاً اس کا اثر ان کی گھریلو زندگی پر بھی ہوگا ۔ سیریلس کو اتنا چٹ پٹا بنادیا گیا ہے کہ ہر کوئی اس کی رنگینی میں گم ہے ان سیریلس کی شکار ہماری نونہال لڑکیاں اور خواتین تو ہیں ہی ریٹائرڈ مرد حضرت کی بھی ایک کثیر تعداد ان میں شامل ہے جو بڑے افسوس کی بات ہے ۔

ان سیریلس میں ازدواجی زندگی کی پامالی اور فحش کپڑوں کو خوشنما بناکر دکھایا جاتا ہے ۔ میاں بیوی کے تعلقات میںخرابی ،شوہر بیوی پر شک کررہا ہے تو بیوی شوہر پر گھریلو جھگڑے اور اسی طرح کے معاملات ان سیریلس میں عام طور سے بتائے جاتے ہیں ۔جبکہ میاں بیوی کا تو رشتہ ہی اعتماد پر قائم ہوتا ہے ۔ اب صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمارے مسلم گھرانوں میں عام رواج ہے کہ گھر کے تمام لوگ چاہے وہ بڑے بوڑھے ہوں یا دوسرے افراد تمام فیملی مل کر یہ ڈرامے دیکھتے ہیں ۔ سیریل کی ہر قسط میں برتھ ڈے پارٹی ، سال گرہ یا پھر کوئی ایک تہوار ضرور دکھایا جاتا ہے کیا برتھ ڈے پارٹنر اور اینور سریز روز مرہ کا معمول ہوسکتے ہیں ؟اسلام اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا یہ سب مغرب کلچر ہے جس نے بیوپاریوں کو سیلنگ اور بزنس کا ذریعہ بنالیا ہے یہ دیکھنے کے بعد ہماری ایک عام گھریلو خواتین بھی یہ خواہش کرتی ہیں کہ ان کا بڑا گھر ہو اس قسم کی تقریبات منائی جائیں اور شوہر انہیں قیمتی تحفے دیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہم ان جانے میں ایسے کلچر کوفروغ دے رہے ہیں جو کہ ہمارا نہیں ہے اور جو قومی دوسری قوموں کی نقالی کرتی ہیں یا ان سے متاثر ہوتی ہیں تو پھر وہ ذہنی غلامی میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔

ہماری نوجوان نسل پر اس کے اثرات:ڈراموں میں سب سے زیادہ مرعوب ہماری نوجوان نسل ہورہی ہے جبکہ یہی لڑکیاں آگے چل کر ایک خاندان کی بنیاد ڈالتی ہیں کسی ڈرامے میں ساس بہو کی لڑائی تو کسی میں ماں بیٹی کی اور کسی میں میاں بیوی کی کسی ڈرامے میں ساس بہو کی لڑائی تو کسی میں ماں بیٹی کی اور کسی میں میاں بیوی کی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں انتشار پھیلتا جارہا ہے ۔ طلاق کی شرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے اسلام تو ہمیں اچھے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے حسن اخلاق کی تلقین کرتا ہے ۔ آج ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے موضوع گفتگو یہی ڈرامے اور کہانیاں ہیں اور اس کو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ تمام پروڈیوسرس اور ڈائرکٹرس کے نام وہ اچھی طرح جانتی ہیں ۔ اس کے بر خلاف اگر ہم ان سے صحابیاتؓ کے نام پوچھ لیں تو جواب مشکل ہی سے ملے گا ۔ شرم و حیا جیسے ناپید ہوتی جارہی ہے ۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں : ہمارے لئے اور ہماری بیٹیوں بہنوں کے لئے قابل تقلیدبی بی فاطمہ ؓ اوربی بی عائشہ ؓ جیسی جلیل القدر صحابیاتؓ ہونی چاہئے ۔ ہماری بیٹیاں یہ سب تعلیمات کس سے سیکھیں ؟کون انہیں بتائے گا کہ ہمارے اسلاف کیسے تھے ؟گھر کے تمام افراد کو ٹی وی ڈراموں سے فرصت نہیں تو کون ان کی تعلیم و تربیت کرے گا ؟اللہ کے رسولﷺنے فرمایا :عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی نگراں ہے اور اپنے دائرہ عمل کے بارے میں جوابدہ ہے ‘‘۔(بخاری)

عبادات پر ڈراموں کا اثر : ڈراموں کے اثرات ہماری نمازوں کو بھی نہیں چھوڑتے ۔ نماز میں خشوع و خضوع کی بجائے ان ڈراموں کی باتیں ذہن میں شیطان کسی نہ کسی طرح لے آئے گا ۔ ایک سروے کے مطابق اکثر خواتین اپنے گھریلو کام حتی کہ نمازیں تک ان ڈراموں کے اوقات کے حساب سے سیٹ کرتی ہیں کہ فلاں سیریل دیکھنے کا وقت ہورہا ہے جلد از جلد نماز پڑھ لی جائے ۔ جب فرض نمازیں ہی جیسی تیسی پڑھی جائیں گی تو قرآن پڑھنے ،اس کی آیات میں تدبیر کرنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کا ہمیں موقع کب ملے گا ۔ یہ ٹی وی سیریل سب شیطان کے ہتھکنڈے ہیں جسے خوشنما اور پرکشش بناکر وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اللہ سے دور کرتا ہے ۔

تدارک : شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں پر نظر رکھے کہ گھر میں نماز کا اہتمام ہورہا ہے یا نہیں ؟گھر میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کا سبب بنے نہ کہ بگاڑ کا ۔
٭٭کیبل کنکشن کا مفید استعمال صرف اور صرف دینی و معلوماتی پروگرامس کیلئے ہو ورنہ اس سہولت کو ختم کریں ۔
٭٭گھر کے فارغ افراد کو اس طرح مشغول کریں کہ ان کا وقت تعمیری کاموں میں صرف ہو ۔
٭٭بلا ناغہ روزانہ ایک نظم ہو کہ وقت مقررہ پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیاجائے
٭٭ بچوں کو اسلامی تاریخ سے واقعات سنائیں
٭٭ بیٹیوں کو صحابیات ؓکے واقعات سنائے جائیں اور اسلام سے محبت ان کے دلوں میں اجاگر کی جائے ۔
٭٭ ٹی وی کا صحیح استعمال کریں۔ تلاوت قرآن یا دروس سننے کیلئے کیا جائے ۔
٭٭دین کی ترقی اس کی اشاعت اور تبلیغ کیلئے نئے نئے طریقے سنجیدگی سے سوچیں ۔ انگریزی کہا وت ہے
’’ چھوٹے ذہن لوگوں کو موضوع بحث بناتے ہیں
درمیانی ذہن واقعات پر بحث کرتے ہیں
اور عظیم افکار و خیالات پر بحث کرتے ہیں ‘‘
کہ جاگو بھی اب تم بہت سو چکے
اٹھو دیکھو کیا پائے کیا کھو چکے

نکہت فاطمہ
(جامعۃ البنات الاصلاحیہ )