موجودہ حکومت سکیولر اقدار کو نقصان پہنچا رہی ہے ‘ لوگوں کو پولرائز کررہی ہے اور سماج میں تفرقہ پیدا کیاجارہا ہے۔ پی چدمبرم 

نئی دہلی۔ سینئرکانگریس لیڈر پی چدمبرم نے نریندرمودی حکومت کے خلاف سخت تنقید کی ہے۔ ان کاماننا ہے کہ حکومت نے ہندوستانی معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے کوئی ٹھوس اور مستحکم اقدام نہیں اٹھائے ہیں۔

سابق یونین منسٹر ‘ راجیہ سبھا ممبر اور سینئر کانگریس لیڈر نے مودی حکومت کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ انہوں نے پرشانت جہا سے اس ضمن میں بات کی ۔

سوال ۔ ان چارسالوں میں حکومت کے بڑی کامیابی او رناکامیاں کیارہی ہیں۔

وہ اپنی کامیابیوں کے ڈھول بجاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کے جشن کو خراب کروں۔اگر میں سمجھوں او رتسلیم کروں کہ انہو ں نے سڑکیں تعمیرکی ہیں‘انفرسٹچکر پراجکٹ مکمل کئے ہیں ‘ بیت الخلاء تعمیرکئے ہیں ‘ الکٹرسٹی کی رسائی میں کام کیاہے ‘ مگر کوئی بھی حکومت یہ کام کرتی ہے۔

کوئی بھی حکومت اپنے مقرر وقت میں مزید سڑکوں کی تعمیر ‘ انفرسٹکچر کی تکمیل اور یہ سب کام کرسکتی ہے۔ حقیقی سوال یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو مستحکم او راثر دار بنانے میں کیا کام کیاہے جس سے ملک کا مقام اونچا ہوا ہے ۔ اس پر یہ ناکام ہوگئے ہیں۔

یہاں پر اور سنجیدہ مسائل ہیں۔ ملک کے سماجی اقدار کو نقصان پہچانے کے لئے انہوں نے کیا کیاہے‘ مذہبی خطوط پر لوگوں کو پولرائز کرنا اور کمیونٹیو ں کو تقسیم کرنے کا جوکام کیا اس سے وہ تمام اچھے کام صاف ہوگئے جس کا یہ تذکرہ کرتے ہیں

سوا ل۔ حکومت اس بات پر زوردیتے ہے کہ انہوں نے عام معاشی نظام کو جی ایس ٹی ‘ ریگولیشن اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ ‘ بینامی زرمبادلہ ایکٹ کے قانون کے

تحت مستحکم کرنے کاکام کیاہے ۔ کیا آپ اس کو قبول کرتے ہیں؟

میں قبول نہیں کرتا۔ یہاں پر ایسے بہت سارے اہم قوانین ہیں جس کو نافذ نہیں کیاگیا ہے۔ نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کو اب تک نافذنہیں کیاگیا۔ حق تعلیم بھی اب تک نافذ نہیں ہوا ۔ جنگلات کے باشندوں کا ایکٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور وہ عملی طور پر ناکام ہے۔

مذکورہ حصول اراضی ایکٹ کے ساتھ مکمل طور پر چھیڑ چھاڑ کی گئی اور ریاستوں کو اپنے طو رپرترمیم لانے کااختیار دیدیاگیا او ران ترمیمات کو صدراتی اختیا ر دیدیاگیا۔میں سمجھتا ہوں یہ زیادہ بنیاد ی قوانین ہیں۔ جہاں تک جن قوانین کا آپ نے ذکر کیاو ہ یہ ہیں۔ بینامی ایکٹ ایک دشمن قانون ہے ۔

او ریہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے لئے ایک ہتھیار بن گیا ہے اور نفاذ کے جب سے اس کے اثرات بھی آپ دیکھ رہے ہیں۔ اس سے قبل کسی بھی افیسر کو اس طرح کے اختیارات نہیں تھے ۔ وہ ہوسکتا ہے سی بی ائی‘ ائی ٹی‘ ای ڈی ہوں۔ ان کی ذاتی آزادی پر یہ ایک کارضرب ہے۔

یہ بی جے پی او روزیراعظم کی طاقت والی حکومت کی بات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہم نے انہیں جی ایس ٹی کے متعلق آگاہ کیاتھا۔

انہوں نے ہماری بات کو نظر انداز کیا اور اب گاڑی کو پٹری پر لانے کے لئے مسلسل تبدیلیاں او رترمیم پر کام کررہے ہیں۔ ہم اب بھی انہیں آر ای آر اے پر چوکنا کررہے ہیں۔ہم نے انہیں ائی بی سی پر آگاہ کیاتھا۔ اس ہفتہ انہو ں نے ایک ارڈیننس لایا ہے۔

ان کاعمل ایسا پہلے چھلانگ لگاتے ہیں پھر بعد میں اس کامشاہدہ کرتے ہیں۔ پہلے مشاہدہ اور پھر بعد میں چھلانگ لگانے کاکام کیاجانا چاہئے
سوال ۔ نوکریوں کی بحث پر حکومت سڑکوں کی تعمیر او رمودرا پر خاص زوردے رہی ہے ‘ انہو ں نے کیاملازمتیں فراہم کی ہیں۔

مودرا کا دعوی ایک مذاق ہے۔ مودرا کے تحت عام قرض 43,000ہے۔ آپ 43ہزار کے رقم سے کس طرح ملازمت تیار کرسکیں گے؟مجھے کوئی اعتارض نہیں اگر آپ43ہزار کروڑ دیں اور ایک کروڑ جواب تیار کریں۔

مگر اتنی تقسم سے ایک جوتے بنانے والا کچھ اوزارخریدے گا ‘ ایک ٹیلر کچھ سازو سامان لے گا‘ ایک نوجوان کو ائسکریم پارلر چلاتا ہے وہ آئس باکس خریدی گئے ‘ کوئی ایک پنکھالگا لے گا۔رسمی شعبہ میں رسمی ملازمت کی تشکیل کے لئے ایک کرور روپئے کی رقم درکار ہے۔

اگر کوئی 5000ایم ڈبلیوایس کے پاؤر پلانٹ کی تنصیب کے لئے تین ہزار کروڑ روپئے لگاتا ہے تو راست یابالراست نوکریاں3000سے اوپر نہیں جائیں گی۔

سڑکوں کی تعمیر سے ملازمت ملتی ہیں۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا ۔سوال زائد نوکریاں فراہم کرنے کا ہے؟اگر آپ پانچ کیلومیٹر کی سڑ ک تعمیرکررہے ہیں ‘ نوکریاں تیار ہونگی۔ مگر بحث یہ ہے کہ جب تعمیرمکمل ہوگئی تو نوکری بھی برخواست ہوجائے گی۔

پھر دوسرے پانچ کیلومیٹر کی تعمیر شروع ہوگی‘ وہی لوگ دوبارہ کام پر مامور ہونگے۔ جونوکریوں کی مجموعی تعداد میں شامل نہیں ہونگے۔ تیسرے بات ہم مستقل ملازمت کی بات کررہی ہے ۔ ائی ایل او کے متعلق ایک ملازمت مستقل ہے۔ دیگر نوکریاں ملی ہیں۔ آپ بتائیں کتنے رسمی ‘ مستقل نوکریاں دی گئی ہیں۔

اور یہی وہ پیمانہ جس کے ذریعہ سابق کی حکومت او رکامیاب حکومت کے درمیان تقابل کیاجاسکتا ہے۔اور اس کی تفصیلات صرف لیبر بیور و سروے میں ہے۔ جس کے متعلق سہ ماہی ڈاٹا بتاتاہے کہ 136000۔ جو صرف سال میں ہزاروں ہوتی ہیں لاکھوں نہیں۔

سوال ۔ کانگریس کا الزام ہے کہ حکومت اداروں کو نظر اندازکررہی ہے ۔ کس طرح؟

میں نے ایک کالم لکھا جس میں اہم اداروں کی بڑی تعداد میں نوکریوں کی طرف اشارہ کیاتھا اور اس کی شروعات سپریم کورٹ سے کی تھی۔
سپریم کورٹ کے اندر آج کی تاریخ میں جسٹس چلمیشوار کی ریٹائرمنٹ کے بعد اٹھ جائیدادں مخلوعہ ہیں‘ تین یا چار اسی سال مخلوعہ ہوجائیں گی۔

نظام مفلوج ہوجائے گا۔ آج کی تاریخ میں ہائی کورٹ کے اندر چارسو جائیدادیں خالی ہیں۔

سوال ۔ اگر حکمرانی میں اس قدر خامیاں ہیں تو ‘ بی جے پی کس طرح الیکشن میں کامیابی کو برقرار رکھے ہوئے ہے؟

یہ ایک اور حربہ جس کے متعلق میڈیا پروپگنڈہ کرتا ہے۔ وہ کہاں جیتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک روز میں پانچ الیکشن ہوئے۔ انہو ں نے یوپی او راترکھنڈ جیتا۔ وہ پنچاب ہارے گئے۔

منی پور اورگوا میں بی جے پی کو کانگریس کے مقابلے شکست ہوئی مگر گورنر کی مدد سے انتخابات کے بعد الائنس تیار کیا‘ ایم ایل ایز کی خرید ی ہوئی اور حکومت تشکیل دی۔ میں ان کی پریشان بڑھانا نہیں چاہتا۔ مگر الکٹورل حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی ووٹوں کے مقابلے میں شکست فاش ہوئی ہے۔

گجرات میں ان کی جیت نہیں ہار ہوئی ہے۔تکنیکی طور پر وہ کامیاب ہوئے ہیں مگر جب آپ کسی بی جے پی لیڈرس سے پوچھیں گیا جیسا میں نے کبھی پوچھا تو وہ قبول کریں گے کہ انہیں شکست ہوئی ہے کہ اور انہوں نے 150سیٹوں پرکامیابی کی بات کہی تھی اور99پر آکر رک گئے۔

اسکے بعد ضمنی انتخابات ائے۔ جس میں انہیں شکست ہوئی ۔ کرناٹک میں کانگریس ووٹ کے تناسب سے انہیں شکست دی چکی ہے‘ کانگریس کوبی جے پی سے دوفیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں مگر سیٹیں ان کے پاس زائد ہوئی۔ حقیقی امتحان تو اب ہے جہاں راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑہ میں الیکشن ہونگے۔

یہاں پرکانگریس او ربی جے پی میں راست مقابلہ ہے۔ اب دیکھتے ہیں۔