موجودہ جمہوری نظام میں کامیاب شراکت داری کے اصول

صدراسلام میںخلافت کا نظام رائج رہا جس کو’’خلافت راشدہ ‘‘کے نام سے جانا جاتاہے جس میںانسانی احترام کوبنیادی حیثیت حاصل رہی،خلافت راشدہ کے بعدملوکیت کا نظام قائم ہوا،بعدازاں خاص طورپربرصغیرہندوپاک کے مختلف علاقوں میں کہیں مسلم بادشاہوں نے اورکہیں غیرمسلم راجائوں نے اپنا اقتدارقائم کیا۔آگے چل کراکثرممالک میں جمہوری نظام رائج ہوا،جمہوری نظام میں ایسے دساتیروقوانین مرتب کئے گئے جن میں بلالحاظ مذہب وملت ملک میں رہنے بسنے والے سارے انسانوں کوشخصی ومذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق تسلیم کیا گیا۔جمہوری نظام ملک کے باشندوں کی رائے سے قائم کیا جانے والا نظام کہلاتاہے،جمہوری نظام میں اتفاق رائے کواہمیت حاصل رہتی ہے،اسمبلی ہویا پارلیمنٹ ،اس کے ممبران کوعوام منتخب کرکے اپنا نمائندہ بناکران باوقاراداروں میں پہنچاتے ہیں وہ اس کے ارکان کہلاتے ہیں ،ان کی اکثریتی رائے سے قوم وملک کے مفادات کومدنظررکھتے ہوئے مسائل طے کئے جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں مسلمان کیسے اپنی اہمیت منواسکتے ہیں،اس وقت دنیا بھرمیں جتنے جمہوری نظام ہیںان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب اوروں کے مقابلہ میں نسبتاًکم ہے،اس لئے جمہوری نظام میں ان کی حیثیت ’’اقلیت ‘‘کی ہے،اقلیت میں ہونے کے باوجودمسلمان جمہوری نظام میں نمایاں رول پہلے اداکرچکے ہیں اوراب بھی اداکرسکتے ہیں۔کیونکہ اقلیت یا اکثریت بجائے خودکوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ اللہ سبحانہ کی ملاقات کا یقین رکھنے والے اس بات کودل وجان سے تسلیم کرتے ہیں ’’کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللّٰہ(البقرہ:۲۴۹)بسااوقات چھوٹی اورتھوڑی سی جماعتیں بڑی اوربہت سی جماعتوں پراللہ سبحانہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں‘‘اس سے ظاہرہے کہ تعداد کی کثرت ،سامان جنگ اورمادی اسباب کی فراوانی پرکامیابی کا دارومدارنہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ کی مشیت اوراس کے اذن پرموقوف ہے۔غلبہ کے لئے اللہ سبحانہ پرایمان ،اس کے مطابق عمل ،خوف آخرت،صبروثبات قدم کے ساتھ منزل کی جانب سفر اعلی اخلاق وکردار،لیاقت و صلاحیت،فکروفن میں کمال ، حق رسی وحق کوشی کے جذبہء صادق سے شعبہائے حیات میں سنجیدہ عملی جدوجہدوغیرہ جیسے اوصاف اہمیت رکھتے ہیں جواور اقوام سے کسی خاص قوم کوآگے بڑھاتے ہیں ،

قیادت وسیادت کے مقام بلندتک پہنچاتے ہیں۔اس مقصدکی تکمیل کے لئے ایسے خطوط پراقلیتوں کوسنجیدہ غوروفکرکرکے ایک لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے جوان کے بچھڑے پن کا خاتمہ کرکے اعزازواکرام بخشے،جمہوری نظام سیاست میں ان کی قائدانہ حیثیت تسلیم کی جاسکے،ملک وقوم کی قسمت کے فیصلے ان کے بغیر طے نہ کئے جاسکیں۔المیہ یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں اسلام کوخاص طورپرنشانہ بنایا جارہاہے ،ایسا علمی موادجواسلامی اعلی اخلاق پرمبنی ہے اورجوانسانیت کاحقیقی نمائندہ ہے کی جگہ ناپاک سازش سے مسخ شدہ زہریلا ونفرت آمیزنصاب تعلیم مرتب کرکے نسل نوکے معصوم ذہنوں کومسموم کیا جارہاہے۔وقفہ وقفہ سے مسلم پرسنل لاء سے چھیڑچھاڑکی جا رہی ہے،خاص طور پر ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں جہاں صدیوں سے مسلم وغیرمسلم یکتاویکجہتی کے ساتھ زندگی گزاررہے تھے ان کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرکے امن وآمان کی فضاء کومکدرکیا جارہاہے ،صرف اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کی غرض سے متعصبانہ مذہبی،طبقاتی،سماجی ومعاشرتی بنیادوں پرتقسیم کی سازش رچی جارہی ہے۔ یہ سازش اگرچہ ملک وقوم کے مفادمیں نہیں ہے پھربھی تعصب ودشمنی میں یہ سب کرگزرنے کیلئے ملک دشمن طاقتیں تیارہیں اوراپنے ناپاک منصوبوںکوکامیابی سے ہمکنارکرنے کیلئے دستوروقانون کی دھجیاں اڑانے سے نہیں چوک رہے ہیں،اس پرسنجیدہ غوروفکرکیا جائے تودوباتیں سامنے آتی ہیں،پہلی بات جس کا خود مسلمانوں سے تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجوداکثریت سے بھی آگے علم کے میدان میں اپنا ایک نمایاں مقام بنائیں۔علم وتحقیق میں جستجواوراس میں کمال دوست تودوست دشمن کوبھی کمال کے آگے سرجھکانے اورباکمال فردکی صلاحیتوں سے استفادہ پر مجبور کردیتا ہے، مسلمان علم واخلاق ،سیاسی سوجھ بوجھ ،فکری بصیرت سے اپنی لیاقت وصلاحیت کا لوہامنوائیں ،اس کوشش وکاوش کو ثمرآوربنانے کیلئے اپنی صفوں میں اتحادپیداکریں،عوام الناس میں اتحادواتفاق ،محبت وبھائی چارہ پیداکرنے کیلئے مسلم تنظیموں اور مذہبی ،مسلکی اورفلاحی اداروں کا آپس میں ایک مشترکہ نقطہ پرمتفق ومتحدہونا ضروری ہے ۔

ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جبکہ اپنے درمیان مذہبی ،سماجی،معاشی وطبقاتی اونچ نیچ اوربھیدبھائوکی مذہبی تقسیم رکھنے والی انگنت خدائوں کو پوجنے والی غیرمسلم انسان اورملک دشمن طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف متفق ہوچکی ہوں توپھرہم ایک خداکے ماننے والے ،ایک ہی کتاب قرآن مجیدکواساس حیات تسلیم کرنے والے اورایک ہی اللہ کے گھر بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نمازاداکرنے والے چندفروعی مسائل سے صرف نظرکرتے ہوئے سب کے درمیان اسلام کے متفقہ ومشترکہ نقطہ پرکیوں جمع نہیں ہوسکتے؟یادرکھنا چاہئے کہ اتحادواتفاق زندگی ہے،افتراق وانتشارموت ہے ،مسلمان جس دن درجہ بالا امورپرتوجہ دیں گے اوران کوعملی جامہ پہنائیں گے تو پھروہ ضرورملک کے اعلی عہدوں اورمناصب پرفائزہوسکیں گے اورملک کودرست وصحیح جمہوریت کی راہ دکھانے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔اگرملک کے وزیراعظم نہ بن سکیں توکیا ہواصدرجمہوریہ،نائب صدرجمہوریہ،کلکٹر،اے ڈی ایم ، تحصیلدار، کمشنر،اے سی پی،ڈی سی پی،آئی اے ایس وغیرہ جیسے اعلی مناصب پرضرورفائزہوسکتے ہیں پھربھی مسلمان غفلت کی نیند سے نہ جاگیں توکسی اورکوکیسے دوش دیا جاسکتاہے۔نوجوان نسل پڑھنے پڑھانے ،لیاقت وکمال پیداکرنے میں دلچسپی دکھانے کے بجائے لا یعنی وفضول اعمال واشغال میں انہماک دکھارہی ہے،کالجس وجامعات کوزینت بخشنے کے بجائے چوراہوں کی زینت بنی ہوئی ہے،چائے خانے اس کی وجہ آبادہیں،بازاروں کی رونق میں اس کی وجہ اضافہ ہے۔اکثرمسلم علاقے راتوں میں دن کا منظرپیش کررہے ہیں،ایسے میں سنجیدہ غوروفکرکرنے اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لیکر والدین کواورملت کے دردمندارباب بصیرت کوایسے اقدامات بروئے کارلاناچاہئے جس کی بدولت مسلم معاشرہ میں ایک اچھی اورنتیجہ خیزانقلابی لہر پیداہوجائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی پسماندگی وپست حالی کا رونا رونے اوردوسروں کواس کا ذمہ دارٹھرانے کے بجائے دین ودیانت ،تقوی وپرہیزگاری ،انسان دوستی اورانسانیت نوازی جیسے اعلی اوصاف واقدارکا دامن تھامے ہوئے آسمان علم وفن کا روشن ستارہ بن کرجگمگا ئیں ، تحقیق وجستجو، مومنانہ فراست و سیاسی بصیرت کے ایسے چراغ جلائیں کہ اغیاراس کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرنے پرمجبورہوں۔