منشاء وقف کی خلاف ورزی‘ یونانی طریقے علاج کو تباہ کرنے کی منظم سازش‘ ڈائرکٹر محکمہ آیوش پر یونانی کے امتیاز برتنے کا الزام

نارائن گوڑہ کی عمارت کو گودام بنادیاگیا‘ حکام اور حکومت دونوں یونانی کو بچانے میں ناکام
حیدرآباد۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے یونانی طریقے علاج کو فروغ دینے کے بلند بانگ دعوے تو کئے جارہے ہیں مگر حقائق اس کے برخلاف ہیں۔ سابق میں قدیم تاریخی شفاء خانہ چارمینار کی زبوں حالی پر مشتمل کئی رپورٹس سامنے آنے کے بعد بھی یونانی طریقے علاج کے تئیں حکومت بالخصوص محکمہ آیوش کے ذمہ داران کے رویہ میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ائی ہے۔محکمہ آیوش کی جانب سے منظم طریقے پریونانی طریقے علاج کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=_AfpyReGNMU

ادوایات کی کمی‘ ادوایات کی تیاری کے لئے درکار سہولتوں کی فراہمی‘ یونانی شفاء خانہ چارمینار میں ڈاکٹرس اور طبی عملے کے تقرر سے لیکر قدیم شفاء خانہ چارمینار میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی ایسے مسائل ہیں جس کا جنگی خطوط پر حل نہیں نکالاگیا تو اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آنے والے پانچ سے دس سالوں میںیونانی طریقے علاج تلنگانہ میں پوری طرح تباہ ہوجائے گا۔

شفاء خانہ چارمینار میں مالی تغلب کارائیوں سے لیکر سابق میں کئے گئے تقررات میں بھی بدعنوانی کے الزامات لگے ہیں مگر حکومت بدعنوان عہدیداروں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے تمام معاملات کو عدالتی کشمکش میں الجھا کر قصور وار عہدیداروں کو بچانے کاکام کیاجارہا ہے اور یونانی طریقے علاج کو تباہ کرنے کی سازش کو منظم طریقے سے عملی جامعہ پہنایاجارہا ہے

۔سابق میں شفاء خانہ چارمینار میں ہونے والی دھاندلیوں اور مالی تغلب کارائیوں کے علاوہ اعلی عہدیداروں کی من مانی کی رپورٹس کو منظر عام پر لانے کے بعد اب یہاں پر اس بات کا خلاصہ کیاجارہا ہے کہ محکمہ آیوش جہاں پر شفاء خانہ چارمینار کے ساتھ سوتیلہ سلوک کررہا ہے وہیں منشاء وقف برائے فروغ یونانی کے تحت وقف کردہ قیمتی عمارت کے بیجا اس استعمال کررہا ہے۔

نارائن گوڑہ کی گنجان آباد ی کے درمیان میں واقعہ قیمتی وقف اراضی جس کا مقصد یونانی کو فروغ دینا کا استعمال ادوایات کے گودام کے طور پر کیاجارہا ہے۔ حالانکہ 2003میں چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم حکومت میں اس اراضی کو بی سی کمیشن کے دفتر کے لئے مختص کردیاگیا تھا جس کے بعد مقامی لوگوں او رسماجی تنظیموں کے احتجاج اور اس وقت کی چندرا بابو نائیڈو حکومت کے خلاف عدالت سے رجوع ہونے کے بعد بی سی کمیشن کے دفتر کی تعمیر کے فیصلے سے حکومت کو دستبردار ہونا پڑاتھا۔

مگر فی الحال اس نارائن گوڑہ کی اس عالیشان تین منزلہ عمارت کو ٹی ایس اے سی ایس کے گودام میں تبدیل کردیاگیا ہے۔ حالانکہ اس عمارت میں ایک شاندار سو بیڈ کایونانی دواخانہ قائم کیاجاسکتا ہے جہاں پر پارکنگ کی بہترین سہولت بھی اور اسپتال قائم کرنے کے بعد شفاء خانہ چارمینار کے تحت چلائے جانے والے نظامیہ طبی کالج کے سیٹوں میں اضافہ بھی ممکن ہے مگر محکمہ آیوش کے ڈائرکٹر نہیں چاہتے کہ تلنگانہ میںیونانی کو فروغ ملے۔

 

نارائن گوڑہ کی یونانی بلڈنگ کے تینوں منزلوں پر محکمہ تلنگانہ اسٹیٹ ایڈس کنٹرول سوسائٹی کی ادوایات‘ ڈرگس‘ کڈس‘ کے سی آر کڈس پر مشتمل لاکھوں کارٹن رکھے گئے ہیں۔ خفیہ ذرائع سے ملی جانکاری کے مطابق پچھلے دوسالوں سے میں مذکورہ عمارت میں رکھے سامان کا کرایہ بھی ادا کیاجارہا ہے مگر اس میں سے ایک روپیہ بھی یونانی کے فروغ کے لئے اب تک استعمال نہیں کیاگیا ۔

عمارت کے اندر (ائی وی) بوتل کوڑے کے ڈھیر کی طرح رکھے ہوئے نگرانی کے لئے ایک چوکیدار ہے مگر جس طرح یونانی کے فروغ کے لئے وقف کی گئی عمارت کا بیجا استعمال کیاجارہا ہے اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت اور محکمہ آیوش کے اعلی عہدیدار نہ صر ف یونانی کے تئیں سوتیلہ سلوک رواں رکھے ہوئے ہیں بلکہ وہ نہیں چاہتے کہ یونانی سے وابستہ کسی بھی چیز کا استعمال یونانی کے مفاد میں ہو۔

یونانی کیساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے پیش نظر اطباء قدیم کے ایک وفد نے مدیر اعلی روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان سے ملاقات کی اور یونانی طریقے علاج سے جڑی تمام باتوں کا تفصیلی ذکر کیااور قومی او رریاستی سطح پر یونانی طریقے علاج کو بچانے کے لئے موثر نمائندگی کے لئے سرپرستی کی خواہش ظاہر کی جس پر جناب زاہد علی خان نے وفد کو ہرممکن تعاون کاتیقن بھی دیا۔

جناب زاہدعلی خان نے وفد کو ہدایت دی کہ وہ یونانی کو بچانے کے لئے منظم تحریک شروع کرنے کے لئے ایک جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تشکیل عمل میں لائے اور مذکورہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی قدیم یونانی شفاء خانہ چارمینار‘ نظامیہ طبی کالج‘ اور نارائن گوڑہ یونانی بلڈنگ کا دورہ کرنے کے بعد وہاں کے حالات پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کرے۔ ممکن ہے کہ ایک یادوروز میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تشکیل اور ناموں کا اعلان بھی کردیاجائے گا۔

وفد میں حکیم سید خواجہ عبدالوحید موظف ڈپٹی ڈائرکٹر سی آر ائی یوایم حیدرآباد‘ حکیم سید غوث الدین سابق مشیر یونانی حکومت آندھرا پردیش‘ ڈاکٹر پی حسین احمد ممبر سی سی ائی ایم( دہلی)‘ ڈاکٹر سیدزین العابدین خان‘ ڈاکٹر شیخ محمد علی الدین‘ڈاکٹر ایم آر ایچ شکیب‘ڈاکٹر رحمن خان اور جناب خالد محی الدین اسد شامل تھے