مندر کے نام پر انتخابات کی تیاری

بی جے پی یہ واضح اشارے دے رہی ہے کہ اس کے پاس اپنی معیاد مکمل کرکے اپنے کاموں کی بنیاد پر عوام سے رجوع ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس کچھ ایسے کارنامے ہیںجن کی بنیاد پر وہ عوام سے رجوع ہوتے ہوئے دوبارہ ان کی تائید و حمایت حاصل کرسکے ۔ شائد اسی لئے بی جے پی نے مختلف گوشوں سے رام مندر کیلئے ایک بار پھر عوام کو بھڑکانے اور ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ بھی اس معاملہ میں سرگرم کردئے گئے ہیں۔ اب یہ بیانات آنے لگے ہیں کہ پارلیمنٹ کے سرمائی سشن میں رام مندر کی تعمیر کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کی جاسکتی ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی کے آلہ کار بظاہر مسلم عناصر بھی سرگرم ہوگئے ہیں۔ پہلے تو یو پی وقف بورڈ کے صدر نشین نے اس مسئلہ پر زبان درازی شروع کی تھی اور گستاخانہ بیانات دیتے ہوئے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر پیدا کردی تھی ۔ انہوں نے تو لارڈ رام ان کے خواب میںآنے کا دعوی بھی کردیا تھا جس کو شائد ہندو برادری نے پسند نہیں کیا اور اس کے بعد سے ان کو دوبارہ گوشہ نشینی اختیار کرنی پڑی ہے ۔ اب ایک نئے چہرہ کو سامنے کیا جا رہا ہے ۔ یہ چہرہ قومی اقلیتی کمیشن کے صدر نشین غیور الحسن رضوی کا ہے ۔ یہ بھی اب کہنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو بابری مسجد مسئلہ میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ ہندووں کیلئے عقیدہ کا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی مسئلہ کو عدالت کے باہر حل کرنے کیلئے کوششیں کرینگے ۔ اس مسئلہ کے فریقین سے بات چیت کرینگے ۔ مسٹر رضوی کا کہنا ہے کہ کمیشن نے انہیں بات چیت کا اختیار دیا ہے لیکن کسی فریق نے انہیں اس حساس مسئلہ پر بات چیت کا مجاز نہیں گردانا ہے ۔ وہ اپنے طور پر ایک بار پھر بی جے پی کے منصوبوںکو پایہ تکمیل تک پہونچانے کیلئے سرگرم ہوئے ہیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس طرح کی کوششیں انہوں نے بی جے پی کے اشاروں ہی پر شروع کی ہیں تاکہ عوام میں ایک بار اس مسئلہ پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جاسکے ۔ ان کے جذبات کا استحصال کیا جاسکے ۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی اس مسئلہ میں ہندووں کے عقیدہ کی بات کر رہا ہے اور مسلمانوں سے فراخدلی کی اپیل کر رہا ہے جبکہ اس حقیقت کو تسلیم کوئی نہیں کر رہا ہے کہ مسجد خدا کا گھر ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ۔ ایک جگہ مسجد بن جائے تو وہ صبح قیامت تک مسجد رہتی ہے ۔ اور پھر جہاں تک فراخدلی کے مظاہرہ کی بات ہے وہ صرف مسلمانوں سے کیوں کی جاتی ہے ؟ ۔ قانونی اعتبار سے مسلمان اس مسئلہ میں مستحکم اور درست موقف رکھتے ہیں اور انہیںکو اس تعلق سے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنے کے مشورے دئے جا رہے ہیں۔ غاصبانہ قبضہ جمانے والوں کے خلاف کوئی منہ کھولنے کی جراء ت نہیں کر رہا ہے اور نہ ہی عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کو کوئی تیار ہے ۔ یہ سارا کچھ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ در اصل بی جے پی ایک بار پھر عوام سے مسائل یا ترقی کے وعدوں کی بنیاد پر رجوع ہونے کے موقف میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس ایسے کوئی کارنامے ہیں جن سے وہ دوبارہ عوام سے ووٹ مانگ سکے ۔ وہ خوفزدہ ہے کہ انتخابات میں جب وہ عوام سے رجوع ہوگی تو عوام اس کے سابقہ وعدوں پر سوال کرینگے ۔ روزگار کے تعلق سے پوچھیں گے ۔ کالے دھن کی بات آئیگی ۔ ہزارہا کروڑ روپئے غبن کرکے فرار ہونے والوں کو مختلف گوشوں سے مدد دئے جانے کے تعلق سے لوگ سوال کرینگے ۔ ان تمام پر بی جے پی کوئی جواب نہیں دے سکتی ۔
بی جے پی کی نریندر مودی حکومت اپنی معیاد کے آخری پڑاو میں پہونچ گئی ہے ۔ اس کو اتنے سارے عرصہ میں مندر کا مسئلہ یاد نہیں آیا اور نہ ہی اس کو حل کرنے کیلئے کوئی پہلی کی گئی ۔ اب جبکہ انتخابات کا موسم دستک دینے والا ہے بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے اور ملک کے عوام کو بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے دور کرنے کے منصوبوں کے تحت ایک بار پھر فرقہ وارانہ کارڈ کھیل رہی ہے ۔ اس کیلئے نہ صرف پارٹی قائدین کو سرگرم کردیا گیا ہے بلکہ اس کی ہم قبیل تنظیموں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے اور اب اس کے آلہ کاروں کو بھی میدان میں اتار دیا گیا ہے ۔ جو لو گ بی جے پی کے منصوبوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں اور اس کے آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں ان کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی انہیں کسی نے مذاکرات کا مجاز گردانا ہے ۔ بی جے پی کو اس مسئلہ پر سیاست بند کرنی چاہئے ۔