مندر مسئلہ ‘سنگھ پریوار اور حکومت

نہیں ممکن حقیقت کا چُھپانا
زباں چپ ہے تو چہرہ بولتا ہے
مندر مسئلہ ‘سنگھ پریوار اور حکومت
جیسے جیسے آئندہ لوک سبھا انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سنگھ پریوار کی جانب سے مندر ۔ مسجد مسئلہ کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ ایک بار پھر ملک بھر میں منافرت پھیلانے کی سازشوں پر عمل آوری شروع ہوگئی ہے ۔ اسی منصوبے کے تحت آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی دوسری تنظیموں کی جانب سے عوام میں نفرت کی آگ پھیلانے کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جا رہا ہے ۔ ان منصوبوں کے تحت سنگھ کی جانب سے بڑے پیمانے پر جلسے اور ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ رام مندر ۔ بابری مسجد مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے ۔ عدالت نے اس کی سماعت کے شیڈول کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ اس کے باوجود سنگھ پریوار کی تنظیموں کی جانب سے مسلسل یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کا انتظار کئے بغیر مندر کی تعمیر کا کام شروع کردینگے ۔ یہ عدالت کی توہین ہے ۔ اس کے باوجود مرکز کی نریندر مودی حکومت ان تنظیموں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی تو دور کی بات ہے زبانی سرزنش سے بھی گریز کر رہی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت خود چاہتی ہے کہ اس طرح منافرت کا ماحول بھڑکا یا جائے تاکہ اسے اپنے انتخابی مفادات کی تکمیل کا موقع مل جائے اور وہ انتخابات میں عوام کی تائید اور ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے ۔ مودی حکومت کے پاس عوام سے رجوع ہونے اور اپنے کارنامے پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں بچا ہے ۔ وہ کسی انتخابی وعدہ کی تکمیل کی مثال بھی عوام کے سامنے پیش نہیں کرسکتی اور نہ اب عوام اس کے آئندہ کئے جانے والے وعدوں پر کوئی بھروسہ کرنے کو تیار ہیں۔ الٹا حکومت کو یہ مسئلہ ہے کہ جب اس کے نمائندے ووٹ مانگنے عوام سے رجوع ہونگے تو عوام ان سے سابقہ وعدوں کے تعلق سے سوال کرینگے ۔ حکومت ان سوالات کی اہمیت کو سمجھتی ہے اوراسے یہ بھی بخوبی اندازہ ہے کہ وہ ان سوالوں کا جواب دینے کے موقف میں نہیں ہوسکتی ۔ وہ نہ روزگار کے مسئلہ پر عوام کو جواب دینے کے موقف میں ہے اور نہ ہی کالے دھن کی واپسی پر کوئی کارنامہ عوام کے سامنے پیش کرسکتی ہے ۔ نہ ہی رشوت کے خاتمہ کا دعوی کیا جاسکتا ہے ۔
ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے شائد خود بی جے پی کے قائدین اور حکومت کے ذمہ داروں نے ایک بار پھر فرقہ پرست تنظیموں کو سرگرم کردیا ہے اور وہ ایک بار پھر ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ یہ تنظیمیں عوام کی توجہ بنیادی اور سلگتے ہوئے مسائل سے ہٹا کر انہیں دوبارہ مندر ۔ مسجد مسئلہ میں الجھانے کے منصوبوں کے ساتھ سرگرم ہوگئی ہیں۔ عدالتوں پر دباو ڈالنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ راست یا بالواسطہ طور پر عدالتی فیصلے سے انکار کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ یہ تک کہا جا رہا ہے کہ عقیدہ کے مسئلہ میں عدالتیں مداخلت نہیں کرسکتیں۔ تقریبا نصف صدی سے یہ مسئلہ عدالتی کشاکش کا شکار ہے اس کے باوجود اچانک ہی صبر کا دامن چھوڑ دینا اور مندر کی تعمیر کیلئے اعلانات کا آغاز کردینا ‘ عوام میں جذبات کو بھڑکانا یہ ایسے اقدامات جن سے خود پتہ چلتا ہے کہ حکومت عوام کا سامنا کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ وہ عوام کے سوالات سے بچنا چاہتی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے بنیادی مسائل ہوا ہوجائیں۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ بیروزگاری ‘ کالے دھن ‘ رشوت ‘ معاشی ترقی ‘ داخلی سلامتی ‘ کسانوں کی بدحالی ‘ نوجوانوں کے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹ جائے اور حکومت کو ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے اور ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کا موقع کسی طرح سے مل جائے ۔
سنگھ پریوار کی تنظیموں کی نفرت انگیز سرگرمیوں اور حکومت کی کھلی چھوٹ اور مجرمانہ خاموشی سے واضح ہوگیا ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ بھی بے اثر ہوگیا ہے اور یہ الٹا حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے جس طرح ہر شہری کے اکاونٹ میں پندرہ لاکھ جمع کروانے کا وعدہ حکومت کیلئے مشکل کا باعث بنا تھا ۔ اسی وجہ سے حکومت ان تنظیموں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے ملک میں نفرت کی آگ بھڑکانے کا موقع دے رہی ہے ۔ مذہبی جذبات میں عوام کو الجھا کر بی جے پی اور نریندر مودی ایک بار پھر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنا عوام کی ذمہ داری ہے ۔ انہیں اپنے آئندہ پانچ سال اور بچوں کے مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان سازشوں سے چوکنا رہنے اور فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔