ملک کی بدلتی سیاسی تھیوری

مزاج جب سے مِرا میرے اختیار میں ہے
سُنا ہے دشمنِ جاں منزلِ فرار میں ہے
ملک کی بدلتی سیاسی تھیوری
گجرات راجیہ سبھا انتخابات نے ثابت کردیا کہ ملک کو ایک خاص رجحان کی جانب ڈھکیلا جارہا ہے ۔ کانگریس میں اختلافات نے ایک طاقت کو مزید قوی بنانے میں مدد کی ہے۔ راجیہ سبھا انتخابات کے لئے ہوئی رائے دہی سے واضح ہوتا ہے کہ فرقہ پرستی جڑ پکڑ کر اپنا اثر دکھانا شروع کیا ہے۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی کے بااثر سیاسی سکریٹری احمد پٹیل اس انتخابی دوڑ میں شریک تھے ۔ کراس ووٹنگ نے انھیں نازک موقف سے دوچار کردیا۔ کراس ووٹنگ کاآغاز باغی کانگریس لیڈر شنکر سنہہ واگھیلا اور ان کے حامیوں کے موافق بی جے پی امیدوار بلونت سنہہ راجپوت کے حق میں دینے سے ہوا ۔ شنکر سنہہ واگھیلا نے حال ہی میں کانگریس سے علحدگی اختیار کرکے زعفرانی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی ۔ واگھیلا نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد احمد پٹیل کی ناکامی کا اعلان کیا اور اپنا ووٹ زعفرانی قوت کو دینے کا برملا اظہار بھی کیا ۔ کانگریس کیلئے یہ دور واقعی خوداحتسابی کے ساتھ حکمت عملی اور دور اندیشی کی دعوت دے رہا ہے ۔ ابھی صدارتی انتخاب میں پے در پے شکست کا معاملہ دم لینے نہ پایا تھا کہ احمد پٹیل کے انتخاب میں درپیش مشکلات نے کانگریس کی نیندیں اُڑانے کا کام کیا ہے۔ اب کانگریس کس کی بات مانے گی ۔ پارٹی ہائی کمان اپنا رونا روتی ہیں تو کچھ لوگوں کو ان سے ہمدردی ہوجاتی ہے۔ راہول گاندھی کے متوالے جب اپنی بات کرتے ہیں تو گویا پارٹی کے حق میں اچھا کام نہیں دیں گے ۔ جب کانگریس اپنی تھیوری بدل کر بات کرے گی تو نقصان تو ہوگا ہی لیکن اس سے زیادہ نقصان زعفرانی پارٹی کا ہونے والا ہے کیوں کہ زعفرانی پارٹی اس وقت جس بے لگام سیاسی گھوڑے کی سواری کررہی ہے وہ ایک دن اسے پٹخی دے کر آگے بڑھے گا تو اس کا سیاسی مستقبل لنگراتے ہوئے حالات کا سامنا کرے گا ۔ موجودہ سیاست میں زعفرانی زبان سے ایسے ایسے زخم لگائے جارہے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ زخم لگانے والے کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا کرتے ہیں کہ اپنی زبان اور طاقت سے اوروں کو جو زخم لگارہے ہیں وہ زخم ان کے اپنے جسم پر بھی لگ سکتے ہیں۔ زعفرانی پارٹی کے لوگوں کے منہ میں جو آرہا ہے وہ بکے چلے جارہے ہیں اور کرتے جارہے ہیں ۔ اپوزیشن کی صفوں کو منتشر کرنے کی نئی نئی ترکیں تراشی گئی ہیں۔ ان چند برسوں میں سیاسی و اخلاقی طورپر ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں ذلت کے گڑھے میں گرچکی ہیں ۔کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز دائمی نہیں ہوتی اور یہ بھی کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا ۔ سیاست بہت ہی کٹھور دل ہوتی ہے مگر بہترین جنگی حکمت عملی کی طرح سیاست میں بھی پیش قیاسی پیش قدمی کے ساتھ پسپائی کا راستہ کھلا رکھا جاتا ہے ۔ آج کانگریس کو پسپائی کے راستے پر لے جانے والے لوگ کل خود پسپائی کی راہ پر ڈھکیلے جائیں گے تو اُنھیں تب یہ خیال آئے گا کہ آج کے دشمن کل کے دوست بھی ہوسکتے ہیں۔ اپوزیشن کی صفوں میں بی جے پی نے جس طریقہ سے ہزار ہزار دراڑیں ڈال رہی ہے تو کل کسی شرم اور کسی پشیمانی کے بغیر اس پارٹی کو لوگ مسترد کردیں تو حقیقت کیا رہ جائے گی ۔ ہندوستانی عوام ان زعفرانی طاقتوں کے چہرے بھی بخوبی دیکھ سکیں گے ۔ آج بی جے پی میں اڈوانی کا جو حال ہے کل یہ موجودہ بی جے پی قیادت کا بھی ہوسکتا ہے ۔ ایک دن ایک پارٹی اور ایک سیاسی لیڈر کو برا بھلا کہنے والے جب اپنی ناکامیوں کا ملبہ خود پر ڈالے پارٹی کے اندر کسی کنارے بیٹھا دیئے جائیں گے اُن کے چہرے پر چھپے تاثرات دیکھنے والوں کو محسوس ہوگا کہ زعفرانی طاقت جس کی طوطی بولتی تھی۔ اڈوانی اور ان کے ساتھیوں کو 1990 ء میں جس طرح کی طاقت و قوت حاصل تھی کے لئے ان کی ہر طاقت اور قوت دوسروں نے لی ہے ۔ اب یہ لوگ اقتدار میں ہیں ۔ ان کا سیاسی نظریہ اور تھیوری بھیانک ہے اس پر کانگریس کو بھی اپنے نظریہ اور تھیوری کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی ۔