ملک میں معاشی گراوٹ

جو ایک پل کی مسرّت ملی تو لاحاصل
ہر اک خوشی کو تو زہراب سے گزرنا ہے
ملک میں معاشی گراوٹ
ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے نوٹ بندی کا جو فیصلہ کیا گیا تھا وہ اب دھیرے دھیرے ملک کی معیشت پر اثر انداز ہوتا جا رہا ہے ۔ اس فیصلے کے بعد سے مختلف گوشوں سے مختلف تبصرے کئے گئے تھے اور ہر ایک کی رائے مختلف تھی تاہم اکثریت اس بات سے متفق تھی کہ نوٹ بندی کے ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ مرکزی حکومت یا اس کے ذمہ داروں کی جانب سے مسلسل اس بات سے انکار کیا گیا اور کہا گیا تھا کہ یہ اندیشے بالکل بے بنیاد ہیں۔ ہندوستان کی معاشی بنیادیں بہت مستحکم ہیں اور ہندوستان مشکل صورتحال سے نمٹنے کی اہلیت رکھتا ہے ۔ اس کے کوئی دور رس اثرات نہیں ہونگے ۔ تاہم اب خود حکومت نے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق ملک میں جملہ گھریلو پیداوار کی شرح کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔ تازہ اعداد و شمار کے بموجب اپریل سے جون تک کے سہ ماہی کیلئے جملہ گھریلو پیداوار کی جو ترقی کی شرح ریکارڈ ہوئی ہے وہ 5.7 فیصد ہی رہی ہے جبکہ اس سے قبل کے سہ ماہی میں یہ تناسب 6.1 فیصد رہا تھا ۔ حکومت نے جنوری سے مارچ تک کے سہ ماہی میں 6.1 فیصد کی شرح ترقی کے بعداندیشوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ سہ ماہ کے دوران اس تناسب میں اضافہ ہوگا اور یہاں سے ملک کی معیشت مستحکم ہونی شروع ہوجائیگی ۔ حکومت نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس کی جانب سے کئی ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں جو ملک کی معیشت کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کرینگے اور حکومت کے فیصلوں کے منفی اثرات ختم ہوجائیں گے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی معیشت کیلئے مشکل صورتحال کا ابھی تو صرف آغاز ہوا ہے ۔ آئندہ کے تعلق سے جو اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں وہ اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ جملہ گھریلو پیداوار کی شرح میں کمی آنے کا رجحان چل رہا ہے اور یہ توقعات اور امیدوں کے مطابق نہیں ہو رہی ہے تو اس کے منفی اثرات کے تعلق سے اندیشے مزید تقویت پا رہے ہیں۔ جملہ گھریلو پیداوار کی شرح میں کمی ملک کے ہر اہم شعبہ کی صورتحال کو واضح کرتی ہے ۔ خاص طور پر صنعتی پیداوار کے متاثر ہونے کا اس پر اثر دیکھنے میں آر ہا ہے اور یہ بھی قابل تشویش بات ہی ہے ۔
حکومت کے اعداد و شمار میں جملہ گھریلو پیداوار کی شرح گذشتہ سہ ماہی سے اس بار اور بھی کم رہی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی صنعتیں اور جو دیگر شعبہ جات ہیں جو گھریلو پیداوار میں خاطر خواہ حصہ ادا کرتے ہیں وہ در اصل اب دوہرے مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایک طرف تو نوٹ بندی کے اثرات کا ابھی تک انہیں دباؤ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ نوٹ بندی کے فیصلے سے کئی گوشوں سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور اس کا راست اثر پیداوار پر بھی مرتب ہو رہا ہے ۔ اس کے علاوہ اب حکومت نے جی ایس ٹی بھی عائد کردیا ہے ۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد صنعتوں اور دیگر یونٹوں پر منفی اثرات میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس کے نتیجہ میں جملہ گھریلو پیداوار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہی ہے ۔ اس صورتحال میں جبکہ صنعتوں کوا ور چھوٹے تاجروں کو بھی جی ایس ٹی کے تعلق سے اندیشے لاحق ہیں اور ابھی تک اس مسئلہ پرصورتحال پوری طرح واضح نہیں ہوسکی ہے اور نہ تاجروں کی الجھن کو دور کیا جاسکا ہے تو ایسے میں اس سے آئندہ وقتوں میں مزید مشکلات اور پریشانیوں کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ جملہ گھریلو پیداوار میں کمی کی جو شرح اپریل سے جولائی تک کی سہ ماہی میں ریکارڈ کی گئی ہے وہ گذشتہ نو سہ ماہی میں سب سے کم ہے اور اسی سے یہ اندیشے تقویت پارہے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کے نوٹ بندی فیصلے کے اثرات اب زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگے ہیں۔ ابتدائی مراحل میں تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ ابتدائی جھٹکے ہیں اور بعد میں حالت بہتر ہوجائیگی لیکن اصل اثرات تو اب محسوس ہونے لگے ہیں۔
بعض گوشوں کا کہنا ہے کہ حالانکہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے ہوٹلوں اور تجارتی صنعت کو فائدہ ہوا ہے لیکن یہ بات تشویش کی ہے کہ نوٹ بندی کے اثرات اب محسوس ہو رہے ہیں اور اس کا راست اثر جملہ گھریلو پیداوار پر ہوا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں روزگار فراہمی کا تناسب بھی گھٹ رہا ہے اور بحیثیت مجموعی ملک کی معیشت کی صورتحال نازک ہوسکتی ہے ۔ بعض گوشوں کو امید ہے کہ اب حکومت کی جانب سے اس شعبہ پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ بینکوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کی جانب سے اقدامات خاطر خواہ ہوئے ہیں لیکن جملہ اثرات کو زائل کرنے میں حکومت اب بھی کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کیلئے اقدامات کرے اور ایسے اقدامات پر توجہ مرکوز کی جاسکے جس کے نتیجہ میں ملک کی معیشت کو مزید متاثر ہونے سے بچایا جاسکے اور جملہ گھریلو پیداوار مقررہ نشانوں کے مطابق ہوسکے ۔