مقبولیت دعا

حضرت بایزید بسطامیؒ ہمہ وقت انوارالہیہ میں کھوئے رہتے تھے اور خدا کی راہ میں اس قدر کثرت سے خرچ کرتے تھے کہ ہمیشہ مقروض رہتے مگر انکے مریدین سے اہل دولت خدمت گزار فوراً ان کا قرضہ ادا کردیا کرتے ۔ ایک مرتبہ اس قدر مقروض ہوگئے کہ کوئی ادائیگی کی کوئی صورت نظر نہ آئی ، اتفاقاً آپؒ بیمار ہوگئے تو یہ سُن کر قرض خواہوں نے سخت تقاضے شروع کردیئے ، کسی خادم نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت قر ض خواہوں کا سخت تقاضا ہے ۔ آخر اس سے کس طرح پیچھا چھڑایا جائے ، یہ سُن کر حضرت بایزیدبسطامیؒ نے دربارالہی میں دعا کیلئے ہاتھ پھیلائے اور عرض کیا کہ الہ العالمین تو خوب جانتا ہے کہ اس میں مرتبہ بیحد مقروض ہوگیا ہوں جو کچھ بھی میں نے خرچ کیا سب تیری راہ میں کیا اپنے لئیہ کچھ نہیں کیا ۔ جب تک میں سالم و تندرست تھا تو قرض خواہوں کو اطمینان تھا اور میں گروی چیز کی طرح اُن کے قبضے میں رہتا تھا ۔ مگر اب جب کہ موت کا وقت قریب ہے اور تو اپنے پاس بلارہا ہے ۔ تو یہ بات دیانتداری کے خلاف ہوگی کہ گروی چیز تولے لی جائے اور قرض ادا نہ کیا جائے ، لہذا پہلے بایزید کو قرضہ سے چھڑا اور اس کے بعد اپنے پاس بُلا ۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ دروازے پر ایک سوار آیا اور حضرت بایزیدؒ کے سب قرض خواہوں کا قرضہ ادا کردیا اور کہا تم حضرت بایزیدؒ سے کوئی تقاضانہ کرو ۔ جب ان سب قرض خواہوں نے اپنا قرضہ کا ایک ایک پیسہ وصول کرلیا تب بایزیدؒ کی روح پرواز کر گئی اور سب لوگوں نے مل کر حضرت بایزیدؒ کی میت کو دفنایا ، اس کے بعد کسی شخص نے اُن کو خواب میں دیکھا اور دریافت کیا کہ حضرت بتایئے تو سہی آخر کیسے کیسے چھٹکارا ملا ؟ انہوں نے فرمایا کہ رحمت الہی کی کوئی حد و شمار نہیں ۔ حکم ہوا کہ میرے بایزیدؒ تو نے اس تھوڑے سے قرضہ پر مجھ کو ضامن بنایا ، اگر تو تمام دنیا کا مال بھی قرض لے کر خرچ کردیتا تب بھی میں اس کو فوراً ادا کردیتا ۔ فائدہ دیکھئے اللہ تعالی اپنے بندوں کی ضروریات کس طرح غیب سے پوری کرتا ہے ۔