معاشہائے مشروط الخدمت

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسماۃ بی جان بی کے نام عاشورخانہ کی خدمت اور اس کے تحت اراضی تھی موصوفہ کے حینِ حیات فرزند زید کا انتقال ہوگیا انکی بیوہ ہندہ موجود ہیں۔ بی جان بی کے انتقال پر ورثاء میں دو فرزندان اور بیوہ بہو موجود ہیں۔ ان میں سے موجود ایک لڑکا یہ خدمت انجام دے رہا ہے۔
ایسی صورت میں بی جان بی کی اراضی مذکور سے ہندہ کو کیا حصہ مل سکتا ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : معاشہائے مشروط الخدمت میں متروکہ کے احکام جاری نہیں ہوتے، چونکہ یہ خدمت کا معاوضہ ہے اس لئے اس کا مستحق وہی ہے جو خدمت انجام دیتا ہے۔ ان کان الانعام بشرط الخدمۃ فھو أجرۃ فلا یورث ولا یقسم ولا یستحق الأجرۃ الا من قام بالخدمۃ۔ فتاویٰ أبواللیث
پس صورت مسئول عنہا میں حاکم کو چاہئے کہ موجودہ فرزندان بی جان بی میں سے کسی ایک کے نام یہ خدمت منظور کرکے اسکے نام معاش بحال کردے۔ زید کی زوجہ ہندہ کا اس میں کوئی حق یا حصہ نہیں ہے۔
اولاد کی کمائی باپ کی ہے
باپ کسی ایک کو ہی اپنی جائیداد نہ دیدے
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر صاحب کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ لڑکی کو باپ نے تعلیم دلوائی من بعدہ وہ محکمئہ تعلیمات میںبحیثیت معلمہ مامور ہوئی۔ اور سات سال تین ماہ تک اپنی سالم تنخواہ ماہ بماہ والد کے حوالہ کرتی رہی اسکے بعد لڑکی کی شادی ہوگئی تو وہ خود اپنی تنخواہ حاصل کرلیا کرتی ہے۔ لڑکے کو بھی موصوف نے تعلیم دلوائی ہے اور اسکو بھی ملازم ہوکر ایک سال کا عرصہ ہوتا ہے اور ایک ماہ قبل شادی بھی ہوگئی۔
بکر صاحب ضعیف العمر ہیں موصوف کی آمدنی اور لڑکی کی آمدنی سے حاصل کردہ جائیداد موجود ہے۔
اب موصوف یہ ساری جائیداد صرف تنہا فرزند کو دے کر لڑکی کو محروم کردینا چاہتے ہیں۔ اور لڑکی کا مطالبہ یہ ہے کہ کم ازکم اس کی آمدنی سے جو جائیداد خریدی گئی ہے وہ اس کو دیدی جائے۔
ایسی صورت میں شرعاً کیا حکم ہے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں لڑکی تاریخ شادی تک اپنے باپ {بکرصاحب} کے زیر پرورش رہتے ہوئے جو کچھ کمائی وہ سب باپ کی ملک ہے اب لڑکی کو اس کے مطالبہ کا حق نہیں۔ رد المحتار جلد تین کتاب الشرکۃ صفحہ نمبر ۵۴۰ میں ہے وفی الخانیۃ زوج بنیہ الخمسۃ فی دارہ وکلھم فی عیالہ واختلفوا فی المتاع فھو للأب وللبنین الثیاب التی علیھم لاغیر۔
البتہ بکرصاحب کو چاہئے کہ وہ اپنی جائیداد لڑکے اور لڑکی دونوں میں تقسیم کریں۔ ساری جائیداد لڑکے کو دے کر لڑکی کو محروم کردینا گناہ ہے۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد چہارم کتاب الھبہ میں ہے وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لأنھا عمل القلب وکذا فی العطایا ان لم یقصدبہ الاضرار وان قصدہ یسوی بینھم یعطی البنت کالابن عند الثانی وعلیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز و أثم۔
فقط واﷲ أعلم بالصواب