مظفر نگر متاثرین اور سیاسی قائدین

ہے کون زمانے میں میرا پوچھنے والا ؟
ناداں ہیں ‘ جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے
مظفر نگر متاثرین اور سیاسی قائدین
مظفر نگر میں فساد کے تین ماہ کے بعد بھی فساد متاثرین کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے ۔ فسادات تو چند دن میں ختم ہوگئے لیکن ان کے اثرات مہینوں سے چل رہے ہیں۔ فسادات میں جتنے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اس سے زیادہ لوگ ریلیف کیمپوں میں زندگی ہار چکے ہیں۔ مظفر نگر میں ہوئے منظم فساد کے بعد ایسا لگتا ہے کہ مزید منظم اور منصوبہ بند انداز میں متاثرین کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ فساد متاثرین کو امداد اور راحت پہونچانے میں مکمل ناکامی کے بعد اب انہیں فساد متاثرین قرار دینے ہی سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ ریلیف کیمپوں میں جو حالت زار ہے اس نے سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے ۔ ملک کی پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر مباحث ہوئے اور ریلیف کیمپوں میں بنیادی سہولتوں تک کی عدم فراہمی اور شدید سردی کی وجہ سے مسلسل اموات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے بھی ریلیف کیمپوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اتر پردیش حکومت کو وہاں موثر انتظامات کرنے اور متاثرین کو تمام سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ اس کے باوجود اب اتر پردیش میں برسر اقتدار سماجوادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ ریلیف کیمپوں میں کوئی متاثرین نہیں ہیں بلکہ یہ کانگریس اور بی جے پی کے کارکن ہیں جو وہاں مقیم ہیں۔ ملائم سنگھ یادو کا یہ ریمارک مسلمانوں کے تئیں ان کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ ملائم سنگھ یادو مسلسل خود کو اپنی جماعت کو مسلمانوں کی ہمدرد ظاہر کرتے رہے ہیں۔ مسلمانوں نے ہی ملائم سنگھ یادو کو ووٹ دیتے ہوئے ریاست میں اقتدار دلایا ہے ۔ مسلمانوں نے ہی ہر موقع پر ان کی جماعت کا ساتھ دیا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود مسلمان متاثرین کے تئیں ملائم سنگھ یادو کا یہ رویہ انتہائی قابل مذمت ہے اور ان کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ وہ بھی مسلمانوں کے ووٹ لینے کے بعد مسلمانوں کو یکسر فراموش کرچکے ہیں اور اب تو انہیں فساد متاثرین تک سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ ریلیف کیمپوں کی یہ حالت ہے کہ یہاں مقیم لوگ غیر انسانی حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ انہیںاپنے گاووں کو جاتے ہوئے اپنی زندگی کیلئے خطرات کا اندیشہ ہے ۔ کیمپس میں انہیں دو وقت کی غذا اور ادویات تک میسر نہیں ہیں ۔ خون منجمد کردینے والی سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ایسے میں اگر کوئی حقیقی متاثر نہ ہو تو وہاں چند گھنٹے رکنا پسند نہ کرے جبکہ متاثرین تین ماہ سے وہاں ان حالات میں زندگی گذار رہے ہیں۔
مظفر نگر فساد میں پولیس اور انتظامیہ کا رویہ پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف رہا ہے ۔ مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا ۔ ان کی جائیداد و املاک کو تباہ کیا گیا ۔ گاووں سے مسلمانوں کا صفایا کردیا گیا ۔ اب یہ غنڈہ اور فرقہ پرست عناصر ان متاثرین کو اپنے گاووں کو واپس ہونے پر سنگین نتائج کا انتباہ دے رہے ہیں۔ ان کی خواتین کی عصمت ریزی کی گئی ۔ خود ریلیف کیمپ میں عصمت ریزی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اور پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ اب برسر اقتدار پارٹی کے سربراہ ان سب کو جھٹلانے پر اتر آئے ہیں اور ریلیف کیمپ میں مقیم متاثرین کو سیاسی جماعتوں کے کارکن قرار دے رہے ہیں۔ یہ ان کی بے حسی کی انتہا ہے۔ یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے ملائم سنگھ یادو کی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو سہارا دیا تھا اور اسے اقتدار کی کرسی تک پہونچا دیا تھا ۔ یہ وہی ملائم سنگھ یادو ہیں جن پر مسلمان مہربان ہوئے تو انہوں نے یہ فراموش کردیا کہ یہ کبھی بابری مسجد کی شہادت کے خاطی کلیان سنگھ کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ مسلمانوں نے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف مقابلہ کیلئے ملائم سنگھ یادو کو ووٹ دیا تھا تاہم اب ان کی پارٹی ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو یکسر فراموش کرچکی ہے اور وہ ان سے انصاف کرنے تک کو تیار نہیں ہے ۔ ملائم سنگھ یادو ایسا لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے بالواسطہ فرقہ پرستی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور وہ محض دکھاوے کیلئے اپنے چہرے پر سکیولر ازم کا نقاب لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے حالیہ ریمارکس اس تاثر کو مستحکم کرنے کی وجہ بنے ہیں۔
ریلیف کیمپس میں مقیم ہزاروں متاثرین کو بنیادی سہولتیں پہونچانے کی بجائے ان کے تعلق سے اس طرح کی بے حسی کا مظاہرہ کرنا انتہائی قابل مذمت ہے ۔ ہر گوشے سے ‘ پارلیمنٹ سے اور عدالتوں سے حکومت کی ناکامی پر سوال کیا گیا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ملائم سنگھ یادو اپنی برہمی کو اس انداز سے ظاہر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ملائم سنگھ یادو اپنے فرزند کی حکومت کی ناکامی کو چھپانے کیلئے مسئلہ کو ایک الگ رنگ دینا چاہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایک برسر اقتدار پارٹی کے ذمہ دار سربراہ کی حیثیت سے انہیں ریاستی حکومت کی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہئے تھا اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر حکومت اور چیف منسٹر اکھیلیش سنگھ یادو کو متاثرین کی با زآباد کاری اور ان کی اپنے اپنے گاووںکو واپسی کیلئے اقدامات کرنے کا مشورہ دینا چاہئے تھا ۔ اس کے برخلاف متاثرین کے وجود سے ہی انکار کردینا ان کی مفاد پرستی کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے ۔ ملائم سنگھ یادو یہ فراموش کرچکے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بھی انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی ۔ شائد وہ اس طرح کے ریمارکس کے ذریعہ ہندو ووٹ حاصل کرنے کی مہم شروع کرچکے ہیں لیکن انہیں یقینی طور پر اپنی اس عدم سنجیدگی اور قابل مذمت طرز عمل اور ریمارک کا احساس 2014 کے عام انتخابات کے بعد ہوگا ۔