مظفر نگر فسادات:7مسلم عورتیں بتایا جاتا ہے جن کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی ہے بازیابی اور انصاف کی جدوجہد کررہی ہیں۔ایمنسٹی کی رپورٹس:

مظفر نگر: ہندوستان کے مشہور ہندومسلم فسادات میں سے ایک ‘ لرزہ خیز اورہولناک فسادات جس میں62لوگ مارے گئے‘ بڑے پیمانے پر مسلم خواتین کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی او رسینکڑوں کیرانہ منتقل ہونے پر مجبورہوگئے۔

مظفر نگر فسادات کے دوران متعدد اجتماعی عصمت ریزی واقعات میں سے’ سات مسلم عورتیں جاٹ طبقے کی جانب سے کی گئی اجتماعی عصمت ریزی کے خلاف شکایت کی ہمت دیکھائی۔

تاہم آج کی تاریخ تک کسی ایک کوبھی اس واقعہ میں سزاء نہیں سنائی گی‘ اس بات کا نیو ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا ( اے ائی ائی )کی رپورٹ میں کیاگیا ہے جو جمعرات کے روز جاری کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق سات میں دو متاثرین نے دھمکیوں کی وجہہ سے اپنا بیان تبدیل کردیا۔سال 2016میں ایک فوت ہوگئی۔ دو مقدمات میں اب سنوائی شروع نہیں کی گئی۔

متاثرین کو ریاست حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مرعات بھی نہیں ملی‘اس کے علاوہ فسادات میں اپنی جائیدادیں کھونے والے تمام متاثرین ایکس گریشیاء کی ادائی عمل میں اچکی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ ریاستی حکومت نے متاثرین کو اس وقت تحفظ فراہم کیاجب انسانی حقوق کے جہدکاروکیل نے سپریم کورٹ میں سال 2013ڈسمبر کو ایک درخواست پیش کی ‘‘۔

چونکادینے والی بات تو یہ ہے کہ ’ جب تحقیق کرنے والی متاثرین سے ملاقات کرنے پہنچی تو انہیں پتہ چلا کہ کئی ایک کو کیس کے متعلق انتظامیہ کی جانب سے کوئی اطلا ع تک فراہم نہیں کی جارہی ہے۔کچھ لوگوں نے بتایا کہ وہ کئی مہینوں سے سنوائی میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں سنوائی کیلئے مقرر ہ تاریخ کے متعلق معلومات فراہم نہیں کئے گئے اور نہ کیس لڑنے والے پبلک پراسکیوٹر نے کبھی آکر ان سے ملاقات کی۔مظفر نگر ڈسٹرکٹ کورٹ وکیل نے کہاکہ ۔ تاخیر کی وجہہ سے متاثرین کو تلاش کرنا ہے اور وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ متاثرین میں سے ایک سال2016اگست میں فوت ہوگئی ہیں۔
متاثرین نذر اندازاور بے حس سیاست
دیکھا جارہا ہے کہ سیاسی جماعتیں مقدمات کو بھول گئی ہیں۔ جبکہ سماج وادی پارٹی اور بی جے پی کا یوپی انتخابات میں منشور خواتین کی حفاظت اور انہیں مضبوط بنانے کی بات کرتا ہے ۔

انہوں نے مقدمات میں تیزی کے سنوائی کا کوئی وعدہ اس میں شامل نہیں کیا۔ جبکہ دونوں ضلعوں میں 11فبروری کو رائے دہی عمل میں ائی۔آلہٰ باد ہائی کورٹ نے تین ملزمین کو ڈسمبر2014اور جنوری ‘ فبروری سال 2015کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ایک درخواست پر ریاستی حکومت نے مارچ11کے نتائج کے بعدآگے ائے ‘او رتمام کو بھروسہ دلایا کہ اجتماعی عصمت ریزی کے تمام واقعات کی مکمل تحقیقات کے ذریعہ خاطیوں کو سزاء دلائی جائے گی اور کسی تاخیر کے بغیر یہ عمل پورا کیاجائے گا

متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کودھمکیوں اورہراسانیوں کی تحقیقات کی جائے گی او رمشتبہ افرادکو تحویل میں لیاجائے گا‘ متاثرین کو موثر قانونی مدد اور سرویس فراہم کی جائے گی ‘ انہیں مقدمات کی تفصیلا ت سے مسلسل آگاہ کیاجاتے رہے گا‘اور یقین دلایا گیا کہ متاثرین کی موثر انداز میں بازآبادکاری بھی کی جائے گی۔

سابق بیورکریٹس ہرش مندر کے مطابق’’یہ طریقہ کار فرقہ وارانہ فسادات اورہندوستان میں مخالف دلت تشدد کی پیروی کرتا ہے۔ہم نے دیکھا ہے کہ اس طرح کے واقعات گجرات اور اترپردیش میں پیش ائے جہاں پر دو علیحدہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔ پولیس نے نہ صرف کوئی مقدمہ درج کیاہے بلکہ کمزور چارچ شیٹ بھی تیار کی ہے۔یہ نہ صرف ناکامی نہیں بلکہ جان بوجھ کر متاثرین کو انصاف سے باز رکھنے کے لئے کیاگیا عمل ہے‘‘۔
کیرانہ سے ہندؤں کی نقل مقام کی جھوٹی کہانی
دھول سے بے چین چھوٹا سا شہر کیرانہ جو ویسٹر اترپردیش میں واقع ہے اس وقت سرخیوں میں جب پچھلے جون کو یہاں کے بی جے پی لوک سبھا کے نمائندے حکم سنگھ ’’ہندؤں کے نقل مقام‘‘ کا مسئلہ اٹھایا۔

حکم جس نے سال 2013کے مظفر نگر فسادات میں مبینہ رول ادا کیاتھا‘ اچانک اپنے اس دعوے کے ذریعہ سیاسی اشتعال کھڑا کیاکہ مسلمانوں کی زیادیتوں سے مجبور ہوکر 346ہندوں خاندان کیرانہ سے نقل مقام کرچکے ہیں ۔بعدازاں یہ بات سامنے ائی کہ یہا ں سے نقل مقام کرنے والے ہندو خاندان میں سے کئی لوگوں نے روزگار کی تلاشی میں نقل مقام کیا ہے ۔

علاقے کے کئی لوگوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ لاقانونیت کی باتیں غیرضروری کی جارہی ہیں تاکہ عوام کو گمراہ کیاجاسکے تاکہ اس مسلئے کو مذہبی خطوط پر پیش کیاجاسکے اور سال 2017کے اسمبلی انتخابات میں اس سے استفادہ اٹھایا جاسکے۔دی وائیر نے اپنے تحقیق میں پایا کہ مظفر نگر فساداتکے بعد مہاجرین کیمپ میں رہنے والے متاثرین کے چونکہ دینے والے حالات سے دوچار ہیں۔