مسلم پرسنل لا بورڈ کی مساعی

ہم جب اپنی تلاش میں نکلے
دُور تک بھی نظر نہ آئے تم
مسلم پرسنل لا بورڈ کی مساعی
مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ و مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر دستخطی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ طلاق ثلاثہ پر عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کا جائزہ لینے کیلئے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی ایک مضبوط تنظیم کی حیثیت سے مسلم پرسنل لا بورڈ نے اب تک کئی اہم موقعوں پر مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے اور دفاعی موقف اختیار کرتے ہوئے شریعت کے تحفظ کیلئے مضبوطی سے قائم رہی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے اراکین نے وقتاً فوقتاً قومی سطح پر اصلاحات کے اقدامات بھی کئے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف خبروں تک محدود ہوتا تو امکان تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے جواب میں کوئی خاص قدم نہیں اٹھانا پڑتا۔ مگر عدالت کا فیصلہ راست شریعت میں مداخلت کا اشارہ ہے تو اس کا عمیق جائزہ لے کر مدافعتی موقف اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے اب تک مسلم طبقہ کی بہترین رہنمائی کی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینے کیلئے بھوپال میں منعقدہ مسلم پرسنل لا بورڈ مجلس عاملہ کے اجلاس کی قراردادیں اور مسلم خواتین کے لئے ملک گیر دستخطی مہم کو بروقت اٹھایا جانے والا قدم سمجھا جائے تو اس کے ساتھ قانونی پہلوؤں کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے پر غور کرتے ہوئے بورڈ کے ارکان نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کیلئے قانونی پہلوؤں کا جائمہ لینے میں کتنا وقت لگائے گا۔ کمیٹی کی تشکیل کے بعد 10 دن میں تفصیلی رپورٹ پیش کئے جانے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں فیصلہ کرنے میں مستعدی کی ضرورت ہے۔ مسلم طبقہ کے بارے میں ہر اجلاس اور گروپ مباحثہ میں موافق مسلم دستوری جواز پر غوروخوض ہوتا ہے۔ دستور ہند میں مسلمان کو جن اُمور کی ضمانت دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنے کے باوجود بعض طاقتیں (قومی سطح کی حکمراں طاقت) اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرکے شریعت میں مداخلت یا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کررہی ہیں۔ جب سے مرکز پر ہندوتوا نظریہ کے سیاست دانوں کا غلبہ ہوا ہے، ہندوستانی مسلمانوں کو مختلف عنوانات سے تنگ کیا جارہا ہے۔ طلاق ثلاثہ جیسے نازک مسئلہ پر مسلم طبقہ کے اندر ہی اصلاحی عمل کو شروع کرنے کی ضرورت تھی مگر ماضی، حال اور مستقبل کی سیاسی و سماجی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے استقدامی اثر کے ساتھ اقدامات کرنے کا فیصلہ تو کیا ہے مگر وہ عدالت میں ایک مضبوط کیس اور دفاعی موقف کے ساتھ پیروی کرنے کی تیاری کس طرح کرے گا، یہ غیرواضح ہے۔ کسی فیصلے کو چیلنج کرنا الگ بات ہے اور عدلیہ کو اپنی بات اور شرعی اُمور سے متعلق ٹھوس دلائل کے ساتھ قائل کرنا الگ بات ہے۔ سوال یہاں عدلیہ پر ایک نظریہ کی حامل طاقت کے غلبہ کا ہے۔ سپریم کورٹ کی بینچ کے منقسم فیصلہ سے ہے، یہ تو واضح ہوتا ہے کہ پانچ رکنی بینچ کے ارکان میں سے 3 ارکان نے علیحدہ رائے ظاہر کی تھی تاہم اس فیصلہ کا دستور اور مذہب کے درمیان تعلقات پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے اثرات مرتب ہوں گے۔ دستور کی آرٹیکل 14 میں تمام وزراء کو دستوری ضمانت دی گئی ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں لیکن سپریم کورٹ نے اس آرٹیکل میں مداخلت کرتے ہوئے ایک رسمی طرز اختیار کیا تھا۔ 1970ء کے دہے سے عدالت نے اس طرح کے پیچیدہ مسائل پر مساوات اور عدم مساوات کی معقولیت پر غور کیا تھا، لیکن اب اس عدالت نے آرٹیکل 14 کے تحت دوسرا تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کو ناکام بنانے کیلئے مسلم پرسنل لا بورڈ نے کوشش کی ہے تو اس کی ہر گوشے سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں پر جس طرح کے مظالم ہورہے ہیں، یہ بے تحاشہ مارے جارہے ہیں، اس کو ہر کوئی ٹریجیڈی ہی تسلیم کررہا ہے لیکن اصل ٹریجیڈی یہ ہے کہ جن پر ظلم ہوا ہے، ان پر بھی کوئی اثر نہیں ہورہا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب اس ظلم نے پتھرا دیا ہے، بے حس اور بے شعور بھی کردیا ہے۔ اس لئے مسلم پرسنل لا بورڈ کو مسلم طبقہ میں پیدا شدہ بے حسی اور بے شعوری کو دُور کرنے کی بھی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑا تلخ کام ہے لیکن پرسنل لا بورڈ کو مضبوط کرنے کیلئے مسلم طبقہ کی تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کو متحد ہونا گزیر ہوگیا ہے۔