مسلم نواز سیکولر پارٹی کا مسئلہ

سطوتِ ماضی ہمیں مت یاد آ
ہم کو جینے دے نئے حالات میں
مسلم نواز سیکولر پارٹی کا مسئلہ
لوک سبھا انتخابات کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کا اعلان اور انتخابی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی حکمراں پارٹی بی جے پی نے مذہبی کارڈ کو سینے سے لگائے ووٹروں کو راغب کرنے والی تقریریں شروع کردی ہیں جب کہ ایک سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول گرم کر کے اپنی ووٹ بینک پالیسی کو روبہ عمل لایا جارہا ہے ۔ اس واقعہ پر الیکشن کمیشن بھی آنکھ بند کر کے دودھ پینے والی بلی بن گیا ہے ۔ ماضی میں انتخابی مہم کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی تھی ۔ ہر امیدوار کو گھر گھر جاکر اپنے لیے ووٹ مانگنے پڑتے تھے ۔ اخبارات میں اشتہارات ، ریڈیو نشریات اور پمفلٹس ، پوسٹرس ، ہورڈنگس کا چلن عام تھا اب اس انتخابی مہم نے سوشیل میڈیا کا رخ کردیا ہے جس سے نہ صرف تمام امیدواروں کا کام آسان ہوگیا ، بلکہ بیٹھے جگہ لوگوں تک پہنچنے کا راستہ مل گیا ۔ اس سوشیل میڈیا کی انتخابی مہم کے اثرات کامیابی کی ضمانت تو نہیں ہیں لیکن حکمراں بی جے پی نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ ہی کسی حد تک 2014 میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ اب یہ سوشیل میڈیا بی جے پی کی 5 سالہ کارکردگی کا آئینہ بن رہا ہے ۔ لوگ ایک دوسرے سے استفسار کررہے ہیں کہ آخر گذشتہ پانچ برس میں مودی حکومت نے عوام کو سوائے چوکیدار کے کیا دیا ہے ۔ اس نئی انتخابی مہم نے عوام کی آنکھیں تو کھولنا شروع کردی ۔ تمام نئے طریقہ سے انتخابی حکمت عملیاں بنانے والی سیاسی پارٹیوں نے اپنے ذہن میں یہ بات پختہ کرلی ہے کہ عوام تک پہنچنے کے لیے مقبول عام اعلانات کریں ۔ ہندوستان میں انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کے دیگر وسائل نے ہر گھر تک رسائی حاصل کی ہے اور اسمارٹ فونس استعمال کرنے والوں کی تعداد ہندوستان کے اندر 50 کروڑ سے تجاوز کررہی ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں نے بھی سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے ۔ مخالف حکمرانی لہر کو اگر تقویت ملتی ہے تو مودی حکومت کو دوبارہ اقتدار حاصل ہونا مشکل ہوگا ۔ شائد بی جے پی والوں کو علم ہوگیا ہے کہ اچھے دن کا نعرہ اس پارٹی کی کشتی ڈبو دے گا لہذا کچھ نئے نعرے سے عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔ ہندوستان میں نوجوان رائے دہندے خاص کر وہ نوجوان جو پہلی مرتبہ ووٹ ڈالیں گے، اپنے مستقبل کی فکر کے ساتھ پولنگ بوتھ پہونچیں گے تو ان کے سامنے فیصلہ کی اہم گھڑی ہوگی اور سوشیل میڈیا ان کی رہنمائی کرے گا ۔ لیکن اس سیکولر ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا جارہا ہے اور سوشیل میڈیا بھی مذہبی بنیاد پر منقسم ہے ۔ خاص کر مسلم رائے دہندوں کے لیے یہ سوشیل میڈیا ایک کڑی آزمائش والے مستقبل کی نوید دے رہا ہے کیوں کہ بعض بااثر گروپس نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ سیکولر ووٹ کاٹنے کا کام شروع کردیا ہے ۔ ملک کی حکمراں پارٹی بی جے پی کو ایک فائدہ سرکاری مشنری سے ہورہا ہے ۔ ملک کی تقریباً ریاستوں میں اس کی حکمرانی ہے یا جہاں حکومت نہیں ہے وہاں کی علاقائی پارٹیوں نے علانیہ یا خفیہ دوستی کرلی ہے ۔ ایسے میں صرف کانگریس یکا وتنہا رہ جاتی ہے ۔ اپوزیشن کے طور پر کانگریس نے مسلمانوں کے تعلق سے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا اور نہ ہی انتخابات کے لیے موافق مسلم حکمت عملی اختیار کرنے کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ بھی حکمراں بی جے پی کی ہندوتوا طاقتوں سے خائف ہے ۔ موافق مسلم پارٹی کا لیبل لگنے سے بچنے کی کوشش کررہی ہے اس لیے وہ نہ تو اکثریتی طبقہ کا قرب حاصل کرپارہی ہے اور نہ ہی اقلیت کو قریب کرنے کی ہمت دکھا پارہی ہے ۔ اس تذبذب کی انتخابی صورتحال کے باوجود مسلمانوں کے سامنے واحد سیکولر پارٹی کے طور پر کانگریس ہی موجود ہے ۔ لیکن بعض مسلم تنظیموں اور گروپس کی وقتی وفاداریوں کی وجہ سے مسلم ووٹ بینک منتشر ہوجاتا ہے ۔ عین انتخابات کے موقع پر مسلم گروپس کے ذریعہ ایسی تلخ اور ناقابل قبول حرکت کروائی جاتی ہے کہ سیکولر پارٹیوں کی انتخابی مہم کے بعد اس سیکولر گروپ کا رخ کرنے والے اکثریتی طبقہ کے رائے دہندے بھی اچانک اپنا رخ بی جے پی کی طرف کرتے ہیں ۔ یہ رائے دہندوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کی گہری سازش کا اثر ہوتاہے ۔ گروگرام ہریانہ میں ایک مسلم خاندان کے گھر میں گھس کر مار پیٹ کرنے کا واقعہ ہو یا مساجد میں نفرت انگیز تقاریر روکنے کے لیے مبصرین کا تقرر کرنے الیکشن کمیشن سے بعض سیاسی گروپس کا مطالبہ ہو ، یہ اس ذہن کی عکاسی ہے جس کے ذریعہ گذشتہ پانچ سال کے دوران سیکولر ملک کو نفرت ، عداوت ، ہجومی تشدد ، گاؤ رکھشک اور دیگر عنوانات سے کھوکھلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس وقت ملک کا سیاسی ماحول ایسا بنادیا گیا ہے کہ کوئی بھی سیکولر پارٹی خود کو مسلم نواز پارٹی قرار دینے سے گریز کررہی ہے ۔ کانگریس کو اپنا موقف واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔۔