مسلم دنیا کے مخالفین

یوں تو انسانوں کے میں جنگل میں ہوں روز و شب مگر
بات جب کردار کی آئے تو بس تنہا ہوں میں
مسلم دنیا کے مخالفین
دنیا کی بڑی طاقتوں کو صرف اپنی بالادستی اور ذرا ذرا سی بات پر دھمکیاں دینے کا خبط طاری رہتا ہے ۔ سعودی عرب کے صحافی جمال خشوگی کے لاپتہ ہونے اور ترکی میں واقع سعودی قونصل خانہ کے اندر ان کے قتل کے شبہات کے درمیان امریکہ اور سعودی عرب دوبدو آگئے ہیں ۔ ترکی نے سعودی صحافی کی گمشدگی اور ان کے قتل کے بارے میں جن شبہات کا اظہار کیا ہے یہ اور سعودی عرب کی جانب سے اب تک کی جانے والی وضاحتوں کے بعد یہ بات واضح ہوتے جارہی ہے کہ مسلم دنیا کو باہم متصادم ہونے کے لیے درپردہ طاقتیں اپنی سازشوں کو بروے کار لانا چاہتی ہیں ۔ جمال خشوگی کے اچانک لاپتہ ہونے کی اطلاع کے بعد جس طرح کی من گھڑت اور گمراہ کن خبریں اچھالی جارہی ہیں اس کے پس منظر میں سرگرم طاقتیں نہایت ہی چالاکی سے اپنے مقاصد کو بروے کار لانے کوشاں ہیں ۔ امریکی نظم و نسق ہو یا وہاں کا میڈیا اور عالمی سطح پر مختلف اقوام کے بارے میں تحفظ ذہنی رکھنے والوں نے سیاسی مقاصد کے تحت کئی گمراہ کن دعوے شروع کردئیے ہیں ۔ جب کبھی کوئی معمولی واقعہ ہوتا ہے تو اس کو ہوا دینے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا مطلب واضح ہے کہ مسلم دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف بے اطمینانی پیدا کی جائے ۔ سوچ میں انحطاط اور حکمرانی کے فرائض میں کوتاہیوں سے جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ ماضی میں ہونے والی جنگوں اور ملکوں کے باہم تصادم ہونے کے اصل واقعات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کئی ملکوں نے حقیر واقعہ کے بہانے ایک دوسرے کو لہولہان کیا ہے ۔ ماضی میں جتنی بھی بڑی جنگوں کو وقوع پذیر دیکھا گیا اس کی اصل وجہ کوئی نہ کوئی معمولی واقعہ ہی تھی ۔ عوام کا خون بہانہ اور ملکوں کے استحکام کو تباہ کردینے کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ سعودی عرب اور ترکی کے معاملہ میں جمال خشوگی کی گمشدگی کے حوالے سے آنے والے دنوں میں مسلم اقوام کو خلیج اور کشیدگی کے دہانے پر پہونچایا گیا تو یہ سازش سامنے آئے گی کہ کون کون ملکوں نے اس سازش کا ساتھ دیا تھا ۔ دنیا کے بیشتر ممالک کی باہمی دشمنی رہتی ہے ۔ حمایت اور مخالفت کے ساتھ سانس لینے والے ان ملکوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ سعودی عرب کے خلاف بھی ایسے کئی ممالک ہیں جو اس کے دیرینہ استحکام ، خوشحالی اور ترقی کے بدخواہ ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ سعودی عرب اپنی ترقی رفتار پر دوڑتا رہے ۔ اب تک ملکوں کے درمیان تصادم کی نوبت پیدا کرنے کے جو بھی فارمولے بنائے گئے ہیں ان میں سعودی عرب کے خلاف بھی فارمولہ تیار کرنے والوں جمال خشوگی کی گمشدگی کو اپنا ہتھیار بناناچاہا ہے ۔ ایسے نازک حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سعودی صحافی کی گمشدگی یا موت کو بہانہ بناکر مسلم دنیا کو کمزور کردیا جائے ۔ سعودی صحافی جمال خشوگی 2 اکٹوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانہ میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں ۔ وہ امریکی اخبار کے لیے کام کرتے تھے اور سعودی شاہی خاندان کے نقاد بھی تھے ۔ ان کی گمشدگی کے واقعہ کے بعد عالمی سطح پر مذمتی بیانات آنے شروع ہوئے ۔ ان مذمتی بیانات میں سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر خشوگی کی موت کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے تو اسے سخت سزا دی جائے گی ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ایک شہری کے لاپتہ ہونے پر ملکوں کے درمیان سفارتی کشیدگی پیدا ہونے والی صورتحال کو ہوا دی جارہی ہے ۔ برطانیہ اور امریکہ نے سعودی کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے پر غور کرنا شروع کیا ہے ۔ اس ماہ کے اواخر میں ریاض میں منعقد ہونے والی اس سرمایہ کاری چوٹی کانفرنس سے غیر حاضر ہونے برطانیہ اور امریکہ نے جو اشارہ دیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں سعودی عرب کو یکا و تنہا کرنا چاہتی ہیں ۔ اگر واقعی سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور تحدیدات عائد کرنے کی حماقت کی گئی تو پھر وہی ہوگا جو مخالف سعودی طاقتیں چاہتی ہیں لہذا سعودی عرب خاص کر مسلم دنیا کو عالمی سازشوں سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ مخالف مسلم دنیا یا مخالف اسلام دشمنوں کے ناپاک منصوبے ناکام بنانے کے لیے مسلم ممالک کو اپنے درمیان کسی قسم کی نا اتفاقی پیدا ہونے نہیں دینا چاہئے ۔