مسلم تحفظات ‘ سنجیدہ کوششیں ضروری

تلنگانہ میں ٹی آر ایس کی جانب سے مسلم تحفظات کی فراہمی کے مسئلہ پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس مسئلہ پر مرکز سے ٹکراؤ کا اعلان کرنے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ پارلیمنٹ میں اپنے ارکان کے ذریعہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی کرواتے ہوئے ٹکراؤ کی کیفیت ظاہر کرنے کی کوشش تو ضرور کر رہے ہیں لیکن یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے مسلمانوں کو تحفظات کے مسئلہ پر کوئی پیشرفت ممکن ہوسکتی ہے ۔ جو طریقہ کار ٹی آر ایس ارکان کی جانب سے لوک سبھا میں اختیار کیا گیا ہے وہ مرکز کی نریندرمودی حکومت سے ٹکراؤ کی بجائے اس کی بالواسطہ مدد کرنے والا رویہ ہے ۔ پارلیمنٹ میںآندھرا پردیش کی دونوں جماعتوں برسر اقتدار تلگودیشم پارٹی اور اپوزیشن وائی ایس آر کانگریس کی جانب سے مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے ۔ اس پر مباحث ہونے ہیں۔ ایوان میں اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے ۔ ٹی آر ایس اور ٹاملناڈو کی برسر اقتدار جماعت آل انڈیا انا ڈی ایم کے کی جانب سے مسلسل ہنگامہ کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی میں خلل پیدا کیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں ایوان میں تحریک عدم اعتماد پر کوئی پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے ۔ ٹی آر ایس کا کہنا ہے کہ وہ مسلم تحفظات کے مسئلہ پر مرکز کے خلاف احتجاج کر رہی ہے ۔ یہ محض ایک دکھاوا ہے اور حقیقت میں ٹی آر ایس کی جانب سے مودی حکومت کی مدد کی جار ہی ہے ۔ ٹاملناڈو کی برسر اقتدار انا ڈی ایم کے کا رویہ بھی اسی نوعیت کا ہے اور وہ بھی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے حکومت کی مدد ہی کر رہی ہے ۔ تلگودیشم نے ایک موقع پر کہا تھا کہ نریندر مودی حکومت تحریک عدم اعتماد پر مباحث اور پھر رائے دہی سے بچنے کیلئے اپنی دوست اور حلیف جماعتوں سے ایوان میں احتجاج کرواسکتی ہے اور اب وہی کروایا بھی جا رہا ہے ۔ ٹی آر ایس کو جہاں تک مسلم تحفظات کا مسئلہ ہے ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی بجائے مرکز نے جو وضاحتیں طلب کی ہیں ان کا جواب دینا چاہئے ۔ دستاویزی کارروائی پورے کئے بغیر اس طرح کا ہنگامہ خود ٹی آر ایس کی نیت میں کھوٹ کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ مرکز کے خلاف لڑائی نہیں بلکہ بالواسطہ حکومت کا دفاع اور مدافعت ہے ۔

حالانکہ جو تحریک عدم اعتماد لوک سبھا میں پیش کی گئی ہے اس سے نریندر مودی حکومت کو کوئی خطرہ درپیش نہیں ہوسکتا کیونکہ اب بھی بی جے پی کو ایوان میںسادہ اکثریت حاصل ہے ۔ خود ٹی آر ایس نے حکومت کے خلاف جدوجہد کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس نے یہ اعلان بھی کردیا تھا کہ وہ لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد کے خلاف اور نریندر مودی حکومت کی تائید میں ووٹ کا استعمال کریگی ۔ اسی سے ٹی آر ایس حکومت کے موقف پر سوال اٹھتا ہے کہ وہ حکومت کی تائید کرنے کا اعلان تو کرتی ہے اور پھر ایوان کے باہر بی جے پی کے خلاف محاذ بنانے کی کوششوں کا بھی دم بھرتی ہے ۔ یہ ٹی آر ایس کا دوہرا معیار ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ تحریک عدم اعتماد سے حکومت کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے لیکن اس سے آئندہ انتخابات کیلئے سیاسی اتھل پتھل ضرور ہوسکتی ہے ۔ اس سے حکومت کی جو معلنہ حلیف جماعتیں ہیں اگر وہ ایوان میں حکومت کے خلاف جاتی ہیں تو اس سے حکومت کو آئندہ دنوں میں مشکلات پیش آسکتی ہیںا ور اس کے اثرات آئندہ لوک سبھا انتخابات کے امکانات پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ حکومت کیلئے یہ کوشش فائدہ مند ہوسکتی ہے کہ وہ ایوان میں تحریک عدم اعتماد پر مباحث ہی کو ہونے کا موقع نہ دے اور اب تک مودی حکومت اپنی دوست جماعتوں کے ذریعہ ایسا کروانے میں کامیاب ضرور رہی ہے ۔ اسی پہلو کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون سی جماعت حکومت کے خلاف کام کر رہی ہے اور وہ کون سی جماعتیں ہیں جو مخالفت کے نام پر نریندر مودی اور ان کی حکومت کی بالواسطہ تائید کرر ہی ہیں۔

جہاں تک مسلم تحفظات کا مسئلہ ہے اس پر ٹی آر ایس کے ایوان میں مسلسل احتجاج سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیںہے ۔ مرکز نے ریاست کی تجاویز اور قرار داد کو کچھ وضاحتیں طلب کرنے کیلئے واپس کیا ہے ۔ اس کا جواب دینا اور وضاحتیں پیش کرنا ریاستی حکومت کا کام ہے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہی ہے ۔ وہ اپنے رویہ سے خود مسلمانوں کو صرف ہتھیلی میں جنت دکھانے میں مصروف ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت واقعی اگر سنجیدہ ہے تو اسے پہلے مرکز کی جانب سے جو وضاحتیں پوچھی گئی ہیں ان کا جواب دے اور اپنے موقف سے مرکز کو واقف کروانے کیلئے دلائل پیش کرے ۔ محض احتجاج مرکز کے سوالات کا جواب نہیں ہوسکتا ۔ یہ احتجاج حکومت کو فائدہ پہونچا رہا ہے اور ٹی آر ایس قیادت اتنی ناسمجھ نہیں ہے کہ وہ اس بات کو سمجھ نہ سکے ۔ اسے مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کی بجائے سنجیدگی سے مسلم تحفظات کو یقینی بنانے اقدامات کرے ورنہ اس کا احتجاج مسلمانوں کو مطمئن نہیں کرسکتا ۔