مسلمان مکت کانگریس یا کانگریس مکت مسلمان م۔ن۔سعید

ہندوستان میں کبھی سیاست یک رنگ نہیں رہی ۔ آزادی کے بعد کانگریس کی کوشش تو یہی رہی کہ وطن کانگریس کے رنگ میں رنگا رہے کوئی بیس پچس برس تک کانگریس کو اس میں بڑی کامیابی حاصل رہی ،لیکن متعدد تمدنوں ،عقیدوں اور تہذیبی اکائیوں کی اس سر زمین پر سیاسی وحدت قائم رہ جانا وطن کی سرشت سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتاتھا ۔کانگریس کے مسلسل اقتدار کے دور میں ہی پرجا سوشلسٹ پارٹی ،سوراجیہ پارٹی ،کیمونسٹ پارٹی ،جن سنگھ وغیرہ حریف پارٹیوں کی صورت میں ابھری ۔ 1969ء میں کانگریس تقسیم ہوگئی نظریاتی اختلاف وطن کی سیاست میں بڑھتا جا رہا تھا جس کے نتیجہ میں جنتا پارٹی کا قیام عمل میںآیا ۔ اس کے مزید ٹکرے ہوئے ۔ پھر سماج وادی پارٹی ،بہوجن سماج پارٹی اتنی سیاسی پارٹیاں بن گئی کہ جنکا شمار آسانی سے نہیں کیا جا سکتا ۔ رنگا رنگی ہندوستانی سیاست جاری رہی اور اسی لئے جمہوریت وطن میں زندہ وتابندہ ہے ۔ ان سیاسی پارٹیوں میں ایک طویل عرصہ تک بالعموم مسلمان کانگریس سے وابستہ رہے ۔ اسکی ایک وجہ صاف تھی جد وجہد آزادی سے ہی کانگریس میں قدآور مسلم لیڈران موجود تھے ۔پاکستان بن جانے کے بعد بھی مسلمان قائدین کی ایک قابل لحاظ تعداد کانگریس میں موجود تھی انکی موجودگی ٹھکرائے ہوئے مسلمانوں کے لئے ایک بڑی سہارا تھی ۔
کانگریس کی سب سے قداور شخصیت پنڈت نہرو کی تھی جن کا سیکولر طرزفکر مسلمانوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرتا تھا ،وہ کسی قدر موہوم ہی سہی ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ کانگریس میں تقسیم وطن سے ناخوش بارسوخ لیڈر وں کی ایک جماعت برابر موجود رہی جو برملا اپنے تعصبات کا اظہار نہیں کر سکتی تھی ۔ہندو مسلم فسادات کے لا متناہی سلسلے میں اس کی ہمدردیا ں ہندو طبقے کے ساتھ تھیں اور اپنی سوچی سمجھی بے عملی یا خاموشی سے مسلم دشمنی کو ہوادے رہی تھی ۔ہندوستانی مسلمان بھی قیام پاکستان کے نتیجہ میں ایک احساس جرم کا شکار تھے اور پرزور طریقہ سے حق طلبی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے ،لیکن کانگریس سے اپنی وابستگی اس لئے توڑ نہیں سکتے تھے کہ انکے پاس کو ئی متبادل نہیں تھا ۔
اس وقت صرف کرناٹک کی صورت حال پیش نظر ہے ۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں نے جس غیر معمولی اتحاد کے ساتھ کانگریس کے حق میں ووٹ دیئے ، تاریخ شاہد اس ذہنی یکتائی کی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی ۔ ملک کی زہر آلودہ فضا کو مسلم ووٹ نے مصفا کرنے کا اہم کام انجام دیا ہے ۔ یہ مسلم ووٹ تھا جس نے بی جے پی کے مقابلہ میں کانگریس کا پلڑا بھاری کردیا ۔ اگر مسلم ووٹ کانگریس جے ڈی ایس میں بٹ گئے ہوتے تو بی جے پی کبھی کا اقتدار پر قابض ہو چکی ہوتی ۔یہ مسلمان کا تدبر تھا کہ جس کانگریس کی بھرپور حمایت کرکے اس سودے بازی کی طاقت عطاکی اور جے ڈی ایس سے مل کر حکومت سازی کر سکی ۔
کرناٹک کا جہاں تک تعلق ہے ، مسلم پر کوئی آفت آئے اس کے حل کے لئے بے ساختہ پہیلا نام جو ذہنوں اور لبوں پر آتا ہے ، وہ بلا استثنا روشن بیگ کا نام ہے ۔ اسکی کیا وجہ ہے ؟ مسلمان پر کوئی بحران آئے ، وہ لیڈر جو خم ٹھوک کر کھڑا ہوتا ہے وہ روشن بیگ ہے ۔ مسلمان کی ناموس،جان ومال،حقوق طلبی،ان کے تحفظ،ہر مسئلہ کو لے کر دشمنی کے آگ میں بے خوف و خطر کود پڑتا ہے تو وہ روشن بیگ ہے ۔ قوم کا درد روشن بیگ کی خمیر میں اور اسکی رگ وپے میں سرایت کئے ہوئے ہیں وہ سود وزیاں کی پرواہ کئے بغیر قوم کے درپیش چلینجوں سے بڑھ جاتا ہے ۔لیکن اسی روشن بیگ کی قیادت کی کشتی بھنور میں گھیر جاتی ہے تو یہی قوم کھڑی کھڑی ساحل پر اسکے ڈوبنے کا تماشا دیکھتے رہتی ہے ۔دم نہیں مارتی مردہ شخص دم نہیں مارسکتا وہ قوم جو مرچکی ہے دم نہیں مارسکتی ۔
حکومت سازی اور پارلیمان کی ٹکٹ میں جس بے ضمیری کے ساتھ انکو نظر انداز کیا گیا اور مسلمانوں کی امیدوں کو پامال کیا گیا وہ محض ایک سیاسی مجبوری یا مصلحت اندیشی معلوم نہیں ہوتی ۔انکے ایک آواز سے سارے کرناٹک کے مسلمان متحد ہو سکتے ہیں ۔ کانگریس کی طرف سے مسلسل نظر انداز کیا گیا کیا بیدر سے ڈاکٹر خسرو حسینی کی جیت کا کوئی شک ہو سکتا تھا ، ابھی حال میں ہوئی کانگریس جے ڈی ایس کی ریالی میں مسلم چہروں کا وجود نا کے برابر تھا ۔