مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں عدالت یا پارلیمنٹ کو مداخلت کا حق نہیں۔جمعیت علماء کی قومی مجلس عاملہ کے اجلاس میں اہم فیصلے

نئی دہلی۔جمعیتہ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اجلاس مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری صدر جمعیتہ علماء ہند کے زیر صدارت منعقد ہوا جس میں طلاق ثلاثہ پر حکومت کی طرف سے قانون سازی اور یوپی میں لاوڈ اسپیکر سے متعلق جاری کردہ ہدایت سمیت کئی قومی وملی مسائل پر بحث وتمحیص کے بعد اہم فیصلے کیے گئے۔

طلاق ثلاثہ ب پر حکومت کی جانب سے ہٹ دھرمی پر مبنی رویہ کی سخت تنقید کرتے ہوئے مجلس عاملہ نے اسے ناقابل قبول اور مسلمانوں کے لئے ناقابل عمل قراردیا ‘ اس سے متعلق مجلس عاملہ کے اجلاس میں ایک اہم تجویز منظورہوئی‘ جس میں صاف لفظوں میں کہاگیا ہے کہ دستور ہند میں دے گئے حقوق کے تحت مسلمانوں کے مذہبی اور عائلی معاملات میں عدالت یا پارلیمنٹ کو مداخلت کا ہرگز حق نہیں ہے‘ لہذا اگر پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون بنائے گی تا حکومت ہند کی طرف سے ایسا کوئی ارڈنینس لایاجائے گا جس سے شریعت میں مداخلت ہوتی ہے وہ مسلمانوں کے لئے ہر گزقابل عمل نہیں ہوگا اورمسلمان بہر صورت شریعت پر عمل کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔

مجلس عاملہ کے ذریعہ منظور کردہ تجویز میں مسودہ قانون کو مسلم مطلقہ خواتین کے ساتھ ناانصافی قراردیتے ہوئے کہاکہ اس قانون کے تحت اس کا قوی امکان ہے کہ مطلقہ خواتین ہمیشہ کے لئے معلق ہوجائیں اور ان کے لئے دوبارہ نکاح اور از سرنو زندگی شروع کرنے کا راستہ یکسر قطع ہوجائے ‘ اس طرح طلاق کے جواز کا مقصد فوت ہوجائے گا۔ ا س کے علاوہ مرد کے جیل جانے کی سز ا عملی طور پر عورت پر بچوں کو بھگتنی پڑے گی۔

اس تجویز کے تناظر میں مجلس عاملہ کی کاروائی ر وشنی ڈالتے ہوئے جمعیتہ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہاکہ سرکاری مسلمانوں پر شریعت کے خلاف قانون ہر گز نہ تھوپے‘ سرکار جس طرح کا رویہ اختیار کررہی ہے وہ درحقیقت جمہوری اقدار کی پامالی ہے۔

مولانا محمودمدنی نے کہاکہ آج کے اجلاس میں یوپی میں لاؤڈ اسپیکر سے متعلق جاری کردہ ہدایت پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی جس کے متعلق ایک تجویز میںیہ کہاگیا ہے کہ آلہ آباد ہائی کورٹ کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے متعلق حالیہ احکامات کے بارے میں جمعیتہ علماء ہند کا یہ اجلاس سبھی مسلمانو ں سے اپیل کرتاہے کہ وہ مساجد کے لاؤڈ اسپیکروں کے انتظامیہ سے اجازت لینے کے لئے قانونی کاروائی پوری کریں اور اگر کسی جگہ کوئی پریشانی پیش ائے تومرکزی اور صوبائی جمعیتہ کے ذمہ داروں سے رابطہ کریں اور حکومت یوپی سے اپیل ہے کہ وہ اس معاملہ میں فرقہ وارانہ تفریق نہ ہونے دیں بلکہ سبھی فرقوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرتے ہوئے یکساں طور پر قانون کا نفاذ کرے۔