مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے ٹھوس اقدامات ناگزیر

قانونی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکتا ہے، ریاستی مجموعی بجٹ کا 12 فیصد مسلمانوں کیلئے مختص کیا جائے، جناب عامرعلی خاں کی تجویز

ف12 فیصد تحفظات کی عدم فراہمی کی وجہ مسلمانوں میں سخت مایوسی : سریش ریڈی
سبز باغ دکھاکر حکومت نے اصلی چہرہ بتادیا : این رتناکر
بے روزگاری دور کرنے کے تمام وعدے کھوکھلے : گوپال شرما
نظام آباد میں بھوک ہڑتال کیمپ سے مختلف جماعتوں کا اظہار یگانگت

حیدرآباد 28؍ فروری (سیاست نیوز) مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کے سلسلہ میں ٹی آر ایس حکومت کی اختیار کردہ پالیسی انتہائی افسوسناک اور ساتھ ہی ساتھ تشویشناک بھی ہے۔ اقتدار پر آنے سے پہلے جو وعدے کئے گئے تھے، اُن پر کوئی عمل نہیں ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ اِن خیالات کا اظہار جناب عامر علی خاں نیوز ایڈیٹر سیاست نے نظام آباد میں 12 فیصد تحفظات کے سلسلہ میں منعقدہ ایک روزہ بھوک ہڑتال کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اُنھوں نے کہاکہ 12 فیصد تحفظات کا وعدہ آپ ہی نے کیا اور ہم توجہ دلارہے ہیں تو اِس میں تکلیف کیوں؟ اُنھوں نے ریاست گیر سطح پر ادارہ سیاست کی بیداری مہم کا حوالہ دیا اور کہاکہ یہ تحریک اپنا مقصد حاصل ہونے تک جاری رہے گی۔ اِس معاملہ میں ہم کسی دباؤ کے آگے جھکنے والے نہیں۔ جناب عامر علی خاں نے کہاکہ مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کو دور کرنے کا واحد راستہ تحفظات ہی ہیں اور اِس ضمن میں حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے سپریم کورٹ کی جانب سے 50 فیصد تحفظات کی حد مقرر کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ریاستی حکومتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پسماندگی کی بنیاد پر اِس حد سے تجاوز کرسکتی ہیں۔ اِس کے لئے دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے یہ ٹھوس ثبوت پیش کرنا ہوگا کہ فی الواقعی مسلمان انتہائی پسماندگی سے دوچار ہیں اور اُن کی ترقی کے لئے تحفظات ناگزیر ہیں۔ جناب عامر علی خاں نے کہاکہ بی سی کمیشن ہی یہ سفارش پیش کرسکتا ہے۔ حکومت نے اگرچہ سدھیر کمیشن اور بی سی کمیشن قائم کیا ہے لیکن اب تک اِس نے کوئی پیشرفت نہیں کی۔ اُنھوں نے حکومت کو یہ تجویز پیش کی کہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد جامع سروے رپورٹ حکومت کے پاس موجود ہے، یہ خود مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک ثبوت ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح دیگر سروے رپورٹس اور حقائق کی بنیاد پر کمیشن اپنی مؤثر رپورٹ تیار کرتے ہوئے سفارشات پیش کرسکتا ہے۔ جناب عامر علی خاں نے یہ تجویز بھی دی کہ اگر تحفظات کا مسئلہ قانونی لیت و لعل کا شکار ہورہا ہے تو پھر حکومت ریاست کے 12000 کروڑ روپئے کے مجموعی بجٹ کا 12 فیصد حصہ یعنی تقریباً 5 ہزار کروڑ روپئے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے مختص کرسکتی ہے۔ حکومت کے لئے ایک مسئلہ بجٹ میں مختص کردہ رقم کو خرچ کرنے کا بھی درپیش ہوگا اور اِس معاملہ میں وہ مسلم نمائندہ شخصیتوں سے مشورہ کرتے ہوئے ساری رقم مسلمانوں کی ترقی کے لئے خرچ کرسکتی ہے۔ اِس طرح مسلمانوں کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات یقینی بنائے جاسکیں گے۔ نظام آباد میں اقلیتی ڈپارٹمنٹ کانگریس سمیر احمد اور ان کے ساتھیوں نے اِس ایک روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ کا اہتمام کیا تھا۔ جناب عامر علی خان نے واضح انداز میں کہاکہ ادارہ ’سیاست‘ نے ملت کی فلاح وبہبود کیلئے جو قدم اٹھایا ہے وہ کسی بھی سیاسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوگا۔ حکومت یہ بات ذہن نشین کرلے کہ اگر تمہارے پاس کرسی (اقتدار ) ہے تو ہمارے پاس آیۃ الکرسی ہے ۔ ادارہ سیاست سے پچھڑے ہوئے عوام کو امیدیں وابستہ ہیں۔ اسی تناظر میں سیاست ملت کے مسائل کی یکسوئی کیلئے متحدہ طور پر حکومت پر اپنا دباؤ اس وقت تک برقرارکھے گا جب تک مسلمانوں کو ان کا جمہوری حق نہیں دیا جاتا اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا انتخابی وعدہ پورا نہیں ہوجاتا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ حکومت مسلمانوں کی زبانی ہمدردی کے بجائے عملی میدان میں آتی ہے تو یقینا ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے ورنہ ملت کے حق میں جدوجہد جاری رہے گی ۔ اُنھوں نے کہاکہ مسلمانوں کی مجموعی ترقی ہی ادارہ سیاست کا نصب العین ہے۔ جناب عامر علی خان نے گزشتہ حکومت کی دعوت افطار میں شرکت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کو ایک تحریری یادداشت بھی حوالہ کی تھی، اس کے باوجود حکومت ٹال مٹول پالیسی اختیار کرتے ہوئے تحفظات کے حصول میں صاف دلی سے کام نہیں لے رہی ہے۔ میں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کے بلالحاظ سیاسی وابستگی اس جدوجہد میں شامل ہوتے ہوئے حکومت پر اپنا دباؤ برقرار رکھیں ۔ جناب عامر علی خان نے آج اس کیمپ پر پہنچ کر اظہار یگانگت کرنے والے ہر سیاسی جماعت کے قائدین تمام تنظیموں سے اظہار تشکر کیا اور اپنی سیاسی جدوجہد کو جاری رکھنے کی اپیل کی۔ اُنھوں نے آخر میں یہ شعر پڑھا :
ہمیشہ دن کو دن اور رات کو ہم رات لکھیں گے
ہمارے ملک کے جیسے بھی ہیں حالات لکھیں گے
سوائے اللہ کے ڈرتے نہیں ہیں ہم کسی سے بھی
جو ہوگی قوم کے حق میں وہی ہر بات لکھیں گے
اس موقع پرہڑتالی کیمپ سے اظہار یگانگت کرتے ہوئے سابق اسپیکر کے آر سریش ریڈی نے کہا کہ حکومت نے انتخابات سے قبل مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس سے انحراف کیا جس کی وجہ سے مسلمانوں میں سخت مایوسی پائی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ کانگریس کے دور میں بھی تحفظات فراہم کئے گئے تھے اور میں نے اسپیکر اسمبلی کی حیثیت سے تحفظات کی فراہمی کی مکمل تائید کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے۔ صدر ضلع کانگریس طاہر بن حمدان نے حکومت کے خلاف ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے فوری تحفظات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ جے اے سی چیرمین گوپال شرما ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت نے 100 دن میں تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ایک ہزار دن مکمل ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک تحفظات فراہم نہیں کئے گئے۔ اُنھوں نے بطور طنز کے سی آر کے جملے کو دہراتے ہوئے کہاکہ اُنھوں نے ’’چیف منسٹر وعدہ کررہاہوں کا اعلان کیا تھا لیکن تلگو میں اس کامطلب وعدہ خلافی ہے شائد چیف منسٹر کو تلگو کے الفاظ کا اُردو ترجمہ کرتے ہوئے اپنی دل کی آواز سنائی دی ہوگی‘‘۔ اُنھوں نے کہاکہ بیروزگار ی دور کرنے کے تمام وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے ۔ سی پی ایم کے ٹاون سکریٹری گوردھن نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ میناریٹی سب پلان کے قیام کا اعلان صرف جھوٹی ہمدردی ہے۔ سی پی ایم کی قائد نورجہاں نے حکومت کی وعدہ خلافی پر افسوس کا اظہار کیا اور مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے فوری تحفظات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ این رتناکر ٹی پی سی سی سکریٹری نے کہا کہ ٹی آرایس ہر انتخابی وعدہ کے معاملہ میں راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ مسلمانوں کو سبز باغ دکھاکر اقتدار حاصل ہوتے ہی اپنا اصلی چہرہ انہوں نے بتاہی دیا۔ تحفظات کو اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے بل کو منظور کروانے کے لئے آپ متحد ہوں۔ اُنھوں نے یہاں تک مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ جس طرح بارش نہ ہو تو آپ عیدگاہ میں جمع ہوکر بارش کیلئے دعائیں مانگتے ہیں اسی انداز میں عیدگاہ میں جمع ہوکر تحفظات کیلئے دعائیں مانگیں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا ہر قدم پر ساتھ دیں گے اور جناب عامر علی خان کی اس تحریک میں شانہ بہ شانہ شریک رہیں گے۔ سید نجیب علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ تحفظات کے ذریعہ ہی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنایا جاسکتا ہے لیکن حکومت کی نیت میں کھوٹ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے زیادہ کیا جھوٹ ہوسکتا ہے کہ شاد نگر کی تقریب میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے 12فیصد تحفظات ایک ڈپٹی چیف منسٹر مسلمان کے علاوہ پندرہ فیصد وزارت میں مسلمانوں کی شمولیت کا وعدہ کرنے والے اور اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرنے والے کے سی آر نے نہ ہی تحفظات کو یقینی بنایا نہ ہی کابینہ میں مسلمانوں کو شامل کیا اور جب ایک اخبار نے حقائق کو عوام کے سامنے لاتے ہوئے حکومت کے وعدہ پر توجہ دلائی تو بجائے اخبار کو مبارکباد دینے کے آمرانہ طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے اور یہ جمہوریت کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ جلسہ کی کارروائی مولانا کریم الدین کمال ریاستی نائب صدر اقلیتی ڈپارٹمنٹ کانگریس نے چلائی۔ محمد انور خان ویلفیر پارٹی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت یہ بات ذہن نشین کرلے کہ ’’سیاست ‘‘ اخبار نے ووٹ مانگنے نہیں ملت کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے تحریک شروع کی ہے۔ حکومت ’’سیاست ‘‘ کی طاقت سے کیوں خوفزدہ ہے؟ انھوں نے واضح انداز میں کہا کہ مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی کیلئے ’’عامر علی خان کی تحریک میں ہم ہر قدم پر ان کے ساتھ ہیں کوئی سیاسی طاقت ملت کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔ واضح رہے کہ آج ایک روزہ بھوک ہڑتال زیرسرپرستی سید نجیب علی ایڈوکیٹ، محمد فیاض الدین سابق صدر ضلع وقف کمیٹی نظام آباد، اشفاق احمد خان نائب صدر ضلع کانگریس کمیٹی منعقد کی گئی۔ سمیر احمد کی قیادت میں عبید بن حمدان، محمد عمرو ، سید اسلم، جمیل احمد قدیر، اکبر نواز الدین، ایم اے شہاب ، محمد خالق، عمران بن محسن، محمد شمیم اختر، ابراہیم خان ایبو، شیخ چاند،مسعود احمد اعجاز، عبدالکریم، عبدالحلیم، ایم اے سلیم،ابرار احمد،طاہر بھیمگل،سلطان مدنور، عبدالقدیر، افروز، نصیر، معین نے بھوک ہڑتال میں حصہ لیا۔ بھوک ہڑتالی کیمپ سے ایم بی ٹی کے صدر عبدالقدیر ساجد، ویلفیر پارٹی آف انڈیا نظام آباد کے صدرانور خان، مسلم لیگ کے شرجیل پرویز، سی پی ایم کے گوردھن ، نورجہاں، ایس سی سیل کانگریس پارٹی راجج گگن، بی سی سیل کے علاوہ دیگر نے یگانگت کی۔ اس ہڑتال میں کاماریڈی کے صدر محمد معز اللہ، ٹاؤن صدر محمد سراج، بانسواڑہ صدر خالق،علیم الدین ضلع جنرل سکریٹری، مصطفی الکاف، عبدالکریم ببو، محمد جاوید اکرم سابق صدر ضلع وقف کمیٹی کے علاوہ دیگر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کل جماعتی ریالی نکالی گئی جس نے جلسہ گاہ پہنچ کر اظہار یگانگت کی۔ جناب عامر علی خان نے بھوک ہڑتال میں حصہ لینے والوں کو شربت پلایا جس کے ساتھ ہی کیمپ کا اختتام عمل میں لایا ۔