مسلمانوں پر جب مظالم ڈھائے گئے تو اجتماعیت کہا ں تھی ؟شاہی امام بخاری کا سوال

نئی دہلی : وزیر اعظم سے انفرادی ملاقات کی جائے یا اجتماعی اس پر شروع ہوئی بحث کے درمیان شاہی امام سید احمد بخاری نے اب باقاعدہ امیر جماعت اسلا می ہند و آل انڈیان مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا جلال الدین عمری کو مکتوب لکھ کر جواب دیا ہے اور کچھ وضاحت طلب کی ہے اور کچھ بنیادی سوال بھی اٹھائے ہیں کہ جب مسلمانو ں پر مظالم توڑے جارہے تھے تو اس وقت اجتماعیت کہاں تھی ؟

دو ایک کو چھوڑکر کیا کسی تنظیم پر ملت کا اعتماد باقی رہ گیا ہے ؟کیاآج تک مشترکہ پر وگرام پر کوئی آگے آیا ؟امام بخاری نے کہا کہ’’ جماعت اسلا می ملی مسائل میں انفرادی ملاقاتوں کے حق میں نہیں ہے ۔اور مولاناجلال الدین نے کہا کہ میں بس یہی چاہتا ہو ں کہ جب لوگ گفتگو کرنے جائیں تو ایسے افراد جائیں جن کا ملت میں اعتبار ہے ۔مولانابخاری نے کہا کہ آپ کے بیان سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ۔

ایک یہ کہ آپ ملی مسائل میں اجتماعیت کی باتیں کررہے ہیں ۔اور دوسرے یہ کہ معتبر لوگ گفتگو کریں ۔جہاں تک اجتماعیت کی بات ہے تو گزشتہ چندبرسوں میں مسلمانو ں پر جو مظالم توڑے جارہے ہیں او رانسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے کیا اس بارے میں اجتماعیت کا مظاہرہ کیا گیا ؟

میں نے اپنی تقاریر او ربیانات کے ذریعہ اکابرین امت کے سامنے متعدد بار یہ بات رکھی ہے کہ مسلمانوں سے متعلق مسائل پر کم از کم مشترکہ پروگرام بنایا جائے اور اس کی بنیاد پر حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے ۔اسے اپنی اجتماعیت کے بل بوتے پر مسلم مسائل کو حل کرنے پر مجبور کیاجائے ۔مگرافسوس کہ اکابرین امت نے کسی بھی معاملہ میں اجتماعی رخ اختیار نہیں کیا ۔سب کی اپنی اپنی ڈفلی اپنے اپنے راگ ہے ۔