مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب سرسید کا اہم ترین کارنامہ ہے۔

شعبہ اُردو ‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کے اشتراک سے ’’ سرسید کی عصری معنویت‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کی افتتاحی تقریب میں جامعہ وائس چانسلر پروفیسر طلعت احمد کا اظہار خیال‘ سرسید احمد خان کو ملک وقوم کا مجدداور محسن قراردیا
نئی دہلی ۔سرسید احمد خان کے دوسوسالہ جشن ولاد ت کے موقع پر شعبہ اُردو‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کے اشتراک سے ’’ سرسید کی عصری معنویت‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ بین الاقوامی سمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔صدراتی خطبے میں پروفیسر طلعت احمد وائس چانسلر ‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے سرسید احمد خان کو ملک وقوم کا مجدد اور محسن قراردیتے ہوئے کہاکہ ان کے نزدیک مسلم قوم اور ہندوستان دونوں کی نجات اور فلاحی تعلیم واتحاد میں مضمر ہے۔

انجینئرنگ آڈیٹوریم ‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں موجودہ سینکڑوں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ماہر سرسید پروفیسر افتخار عالم خان( سابق ڈائرکٹر ‘ سر سید اکیڈیمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے سر سید کے نظریہ دین ودنیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ سرسید مذہب کو عقائد تک محدود رکھنا چاہتے تھے اور وہ اس خیال کے حامل تھے کہ امور دنیا سے مذہب کا تعلق نہیں ہونا چاہئے ۔

انہوں نے مزید کہاکہ سرسید کا اہم ترین کا رنامہ یہ بھی ہے کہ انپوں نے مذہب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا اور وہ آندھی تقلید کے قائل نہ تھے بلکہ تغیر پسندی ا رسماجی ارتقا کے علمبردار تھے۔ اس موقع پر فرانس کے معروف مستشرق اور اُردو زبان کے مشہور اسکالر پروفیسر آلیں دزولیئر نے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سرسید احمد خان کا تصور زبان وادب اور نظریہ مذہب وتہذیب کی معنویت اور افادیت اکیسویں صدی میں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لہذا سرسید کے افکار نظریات کا مطالعہ نئی تحقیق وتنقید کی روشنی میں ضروری ہوگیا ہے۔

اس موقع پر ڈین فیکلٹی برائے انسانی علوم والسنہ پروفیسر وہاج الدین علوی نے سرسید کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر تعلیمی اور اصلاحی تحریک کو مذہب‘ تہذیب ‘ تاریخ اور زبان وادب کے شعبوں میں موثر ترین اجتہادی کارنامے سے تعبیر کیا۔ استقبالیہ کلمات میں صدر شعبہ اُردو پروفیسر شہپر رسول کے تمام بیرون اور اندرون ملک سے تشریف لائے ہوئے مندوبین کا خیر مقدم کرتے ہوئے قومی امید ظاہر کی کہ اس سمینار کے اگلے دودنوں میں دانشواروں اور ماہرین کے مقالوں میں سرسی کی عصری معنویت روشن ہوگی۔

افتتاحی اجلاس میں شعبہ اُردو کے سالانہ مجلہ ’’ ارمغان‘‘ کے تازہ شمارے کا اجرا بھی عمل میںآیا۔یہ شمارہ کلاسیکی شعری اصناف کی تحقیق وتنقید پر مشتمل ہے۔ نیز شعبہ کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کی تازہ شائع شدہ کتابوں کی رسم رونمائی بھی عمل میں ائی۔

ان میں پروفیسر کوثر مظہری کی کتاب ’’ ارتسام‘ ڈاکٹر ندیم احمد کی کتاب ’’ ترقی پسند جدیدیت او رمابعد جدیدیت ‘‘اور سنوکہانی سنوکہانی‘‘ ( مرتبہ ڈاکٹرندیم احمد ‘ غزالہ فاطمہ) ڈاکٹر نوشین حسن کی کتاب ’’اُردو کے منتخب اشنائیے‘‘اور غزالہ فاطمہ کی کتابءء معصوم جدبوں کی جمالیات‘‘ شامل ہیں۔

افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض سمینا ر کے کنونیر پروفیسر احمد محفوط نے انجام دیتے ہولے کہاکہ یہ سمینار اپنے موضوع ‘ مقابلہ نگار اور وقت ک تقاضوں سے ہم آہنگی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ پروگرام کا آغاز حافظ نوراللہ کی تلاوت کلام پاک اوراختتام پروفیسر شہزاد انجم کے کلمات تشکر پر ہوا ۔