مسجد اور گھر میں باجماعت نماز کا ثواب

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کناڈا میں مقیم ہے، اس کے ساتھ چند مسلم نوجوان ہیں۔ محلہ میں مسجد نہیں ہے ، معلوم کرنا یہ ہے کہ اگر کسی آبادی سے مسجد کچھ کم یا زائد تین کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہو کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کا نماز پنجگانہ میں شریک ہونا دشوار ہو اور ایسی صورت میں مقامی مسلمان کسی ایک مکان کو نمازگاہ بنائیں اور وہاں جمع ہوکر نماز پنجگانہ کا باجماعت اہتمام کریں تو جماعت کا ثواب اور مسجد میں نماز ادا کرنے کی فضیلت حاصل ہوگی یا نہیں ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں کسی مسلم آبادی سے مسجد دور ہونے کی وجہ اگر وہاں کے مسلمان کسی مکان کو عارضی طور پر باجماعت نماز ادا کرنے کے لئے مختص کرلیں تو بفحوائے حدیث پاک ’’ صلوٰۃ الرجل فی جماعۃ تضعف علی صلوٰتہ فی بیتہ و فی سوقہ خمسا و عشرین ضعفا … صلوٰۃ الجماعۃ افضل من صلوٰۃ الف بسبع و عشرین (رواہ البخاری) پچیس گنا یا ستائیس گنا مضاعف اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ تاہم مسجد کی فضیلت جو احادیث میں وارد ہے وہ اس عارضی مکان کو نہ فضیلت حاصل رہے گی نہ ہی آداب مسجد اس میں شرعاً ملحوظ رہیں گے چونکہ اسلامی معاشرہ میں مسجد کو بنیادی اہمیت و مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ ہجرت فرماکر سب سے پہلے اپنے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مل کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر فرمائی۔ حدیث پاک میں وارد ہے کہ قیامت کی ہولناک گھڑی میں جہاں جہاں لوگ گرمی کی شدت سے اپنے اعمال کے مطابق پسینہ میں شرابور ہوں گے اور جہاں حصول راحت کیلئے کوئی سایہ نہ ہوگا ، حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے سات قسم کے لوگوں کو عرش کے سایہ میں جگہ عطا فرمائیں گے ، انہیں میں سے ایک وہ بھی ہیں جن کے قلوب مسجد میں لگے رہیں گے۔ قلبہ معلق فی المساجد (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح) اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جو صبح و شام مساجد کا رخ کرتے ہیں ، حق سبحانہ تعالیٰ ان کے لئے جنت میں مہمانی کا سامان مہیا فرماتا ہے ۔ من غدا الی المسجد اوراح اعداﷲ لہ نزلہ من الجنۃ کلما غدا اوراح (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح)۔ ایک مرتبہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے ارشاد فرمایا کہ تم جنت کے باغوں سے گزرو تو اپنے آپ کو خوب سیراب کرلو۔ عرض کیا گیا جنت کے باغ کونسے ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ’’مساجد‘‘ ہیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اذا مرر تم بریاض الجنۃ فارتعوا ۔ قیل یا رسول اﷲ و ما ریاض الجناۃ قال المساجد (مشکوٰۃ المصابیح ص ۷۰ بحوالہ ابو داؤد) ۔ نیز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ روئے زمیں پر سب سے بہترین اور خیر کے حامل مساجد ہیں ۔ ’’ خیر البقاع مساجد‘‘ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح ص ۷۱ ۔ ( ابن حبان ) مذکورہ آبادی کے مسلمانوں کو چاہئے کہ مسجد کی تعمیر کا اہتمام کریں تاکہ وہاں کے مسلمان مسجد کے مذکورہ بالا برکات و ثمرات سے بہرہ مند ہوسکیں۔
بلا اجازت تدفین
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنے اور اپنی اولاد کے دفن کیلئے ایک زمین خریدکر مدفن بنایا، جس میں خود بھی دفن ہوا اور اب اس کی اولاد دفن ہوتی رہتی ہے ۔ بکر نے زید کے مدفن میں اس کی اولاد کی اجازت کے بغیر اپنے ایک عزیز کو جبراً دفن کردیا ۔ زید کی اولاد چاہتی ہے کہ اپنے مدفن سے اس اجنبی کو نکال دے۔ کیا شرعاً زید کی اولاد کو یہ حق حاصل ہے ؟
جواب : صورت مسئول عنہا میں میت اگر غیر کی زمین میں بلا اجازت دفن کردی جائے تو زمین کے مالک کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو نکلوادے یا قبر کا نشان مٹاکر زمین کو بیرونی استعمال میں لے لے ۔ در مختار باب الجنائز میں ہے : ولا یخرج منہ بعد اھالۃ التراب الا لحق آدمی کان تکون الارض مغصوبۃ اور اخذت بشفعۃ و یخیر المالک بین اخراجہ و مساواتہ بالارض کما جاز زرعہ و البناء علیہ اذا بلی و صار ترابا ۔ زیلعی۔