مسجد اقصیٰ کی تقدیس

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
قدس کے معنی پاک کے ہیں اس لئے بیت المقدس کو ارض قدس کہتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسجد بیت المقدس کی بنیاد حضرت یعقوب علیہ السلام نے رکھی اور اس کی وجہ اس کے اطراف واکناف میں انسانی بستیاں قائم ہوئیں اور اس طرح مسجد بیت المقدس آباد ہوئی اس کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں جنوں کی تسخیر کی وجہ سے بآسانی ہوسکی ،اور ایک عظیم الشان عمارت عالم وجود میں آگئی۔ بڑے بڑے وزنی اور بھاری پتھر پتہ نہیں کیسے اس تعمیر میں لگائے جاسکے اور کس طرح بلندی تک ان کو پہنچایا جاسکا۔یہ سب حیرت واستعجاب میں ڈالنے والے منظر ہیں ۔ بعض روایات کے مطابق بیت المقدس یعنی مسجد اقصی اور ہیکل کی تعمیر سات سال میں مکمل ہوسکی ۔

حدیث پاک میں ہے کہ مسجد اقصی کو اس سرزمین پر دوسری مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے ،سب سے پہلے تعمیر ہونے والی مسجد تو مسجد حرام ہے اللہ کے نبی کریم ا سے دریافت کیا گیا کہ مسجد حرام (بیت اللہ )اور مسجد اقصی کی تعمیر میں کتنی مدت کا تعمیری اعتبار سے فرق ہے تو آپ ا نے فرمایا کہ چالیس سال کا ۔(روح المعانی،۸/۱۹ ، متفق علیہ ،اخرجہ البخاری فی صحیحہ۳/۱۲۳۱، حدیث رقم ۳۱۸۶)۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت نبی پاک اکے سفر معراج کا آغاز مسجدحرام سے فرمایا یہ اسری کی پہلے منزل ہے پھر اپنے نبی محترم ا کو آن کی آن میں معجزانہ طورپر مسجد اقصٰی بیت المقدس تک پہنچادیا ،جہاں سیدنا محمد رسول اللہ ا تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی ۔ اس طرح آپ ا کے امام الانبیاء والمرسلین ہونے کا اس عالم میں اظہار ہوا ،اور یہ مقام مقدس اسری کی انتہائی منزل ہے ، اور اسی مقام مقدس سے اللہ سبحانہ وتعالی نے نبی آخر الزماں خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ اکے آسمانوں کی طرف عروج کا انتظام فرمایا اور آپ ا نے آسمانوں کی سیر فرمائی جنت دوزخ کا مشاہدہ فرمایا ،عالم برزخ کے مثالی واقعات ملاحظہ فرمائے،سدرۃالمنتہی اور عرش اعلی تک رسائی ہوئی اور دیدار الہی سے مشرف ہوئے ، اس طرح اللہ کی نشانیاں آپ ا کو دکھائی گئی۔اس عروج کی وجہ اس کو معراج کہا جاتا ہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اسری کے بیان میں مسجد اقصیٰ کا ذکر فرمایا ہے ،اور اس کے اطراف وجوانب میں برکتوں کے حصار کا ذکر فرمایا ہے۔ بارکنا حولہ سے مرادشام کی پوری سرزمین ہے ،حدیث پاک میں وارد ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے عرش سے دریاء فرات تک کی سرزمین کو برکتوں والی بنایا ہے اور اس میں ارض فلسطین کو خاص تقدس عطا فرمایا ہے ۔(روح المعانی،الجزء الخامس عشر،المجلد الثامن،ص۱۸)

اس مقام ذی شان کا اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اس طرح ذکر فرمایا ہے ۔پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے اطراف وجوانب میں برکتیں رکھی گئی ہیںتاکہ ہم اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیا ںدکھلائیں ، بیشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔ وہ برکتیں کیا ہوسکتی ہیں شارحین فرماتے ہیں یہ برکتیں مادی بھی ہیں اور روحانی بھی ،دنیوی بھی ہیں اور دینی بھی ۔ اس کے دینی وروحانی برکات تو لا متناہی ہیں نورانی قلوب ان کو محسوس تو ضرور کرسکتے ہیں

لیکن ان کو زبان وقلم سے محصور نہیں کرسکتے ، اس کی برکتوں کیلئے یہ بات کافی ہے کہ وہ نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ا سے پہلے جتنے انبیاء کرام علیہم السلام گزرے ہیں ان سب کا وہ قبلہ رہا ہے ،کئی ایک انبیاء کرام کا مسکن ومدفن ہونے کا بھی اس سر زمین کو شرف حاصل ہے ۔مادی اعتبار سے بھی سرزمین مقدس بڑی بابرکت ہے ،اس کی مادی برکتوں میں اس سرزمین کی سر سبزی وشادابی ،شیریں پانی کی نہریںاور چشمہ ہیں جو صخرہ سے نکلتے ہیں ۔ (روح المعانی ،۸/۱۹) اور اس کے بابرکت ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس کے اطراف کئی ایک انبیاء وصالحین مدفون ہیں ۔ (قرطبی۵/۱۵۳، صحیح البخاری ۱۱۸۹ فی فضل الصلوۃ فی مسجد مکۃ والمدینہ) ونجیناہ ولوطا الی الارض التی بارکنا فیہا۔سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔ ’’الشام‘‘ ومامن ماء عذب الا یخرج من تلک الصخرۃ التی ببیت المقدس۔(کنزالعمال ،کتاب الفضائل ، ج ۷ ، ص ۷۳) حدیث قدسی میں ہے کہ مسجد اقصی جس شہر میں ہے وہ میرا منتخب مقام ہے میں اپنے منتخب وچنندہ بندوں کو وہاں پہنچائوں گا ۔ (روی عن معاذ بن جبل ر ضی اللہ عنہ ،قرطبی)اور ایک حدیث پاک میں ہے کہ دجال کائنات ارضی میں ہر جگہ پہونچے گا لیکن مکۃ المکرمۃ ، مسجد اقصی ،مسجد نبوی ا ومسجد طور تک اس کی رسائی نہیں ہو سکے گی۔(روح المعانی ۸/۲۸،اخرجہ احمد فی مسندہ۵/۳۶۴،وابن ماجۃ فی سننہ۱/۴۵۱)

مسجداقصیٰ اس کرۂ ارض پر پچھلی امتوں کا اور اس امت کا کچھ دنوں تک قبلہ مقدس رہا ہے ۔چنانچہ پیغمبر اسلام سیدنا محمد رسول اللہ ا نے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے تقریباساڑھے چودہ برس اس کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمائی ہے ۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس میں رسول پاک ا کا ارشاد ہے کہ گھر میں ادا کی جانے والی ایک نمازوہ ایک ہی نماز ہے ، محلہ کی مسجد میں اسی نماز کاپچیس گنا زائد ثواب ہے ،اور جامع مسجد میں ادا کی جانے والی نماز پانچ سو نمازوں کے برابر ہے ،مسجد اقصی اورمسجدنبوی ا میں ادا کی جانے والی نماز کا ثواب پچا س ہزار نمازوں کے برابر ،مسجد حرام کی نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کادرجہ رکھتا ہے۔ (مشکوۃالمصابیح ، باب المساجد ومواضع الصلوۃ)

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جب مسجد اقصی کی تعمیر نو فرمالی تو بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہوئے اٰلہ العالمین تین نعمتیں نصیب فرمائیے ۔ ایک یہ کہ ایسے فیصلہ کی توفیق جو آپ کے فیصلہ ومرضی کے مطابق ہو ۔اور ایسی بادشاہت کے اس کے بعد کسی کو ویسی بادشاہت نہ دی گئی ہواور اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے ارادے سے آنے والے کے گناہوں کی ایسی معافی جیسے کہ وہ اپنی پیدائش کے دن تھا حضرت نبی کریم سیدنا محمد رسول اللہ ا فرماتے ہیں کہ دو چیزیں حضرت سلیمان علیہ السلام کو بخش دی گئیں میں امید رکھتا ہوں کہ تیسری چیز بھی اللہ نے آپ علیہ السلام کو عطا فرمادی ہے ۔ حدیث پاک کی رو سے یہ ارض مقدس ،ارض محشر ومنشر ہے ،اور اس میں نماز کا ادا کرنا کئی گناہ زائد اجر وثواب کا موجب ہے ۔اس لئے وہاں تک پہونچنے کی سعی کرو اور اس میں نماز ادا کرو۔(کنز العمال روی عن ابی ذر،کتاب الفضائل ، رقم ۳۸۱۹۵/ابن ماجہ فی سننہ ۱/۴۵۱،حدیث رقم۱۴۰۷ )