مستقبل کے حالات بیان کرنا، معجزۂ نبویﷺ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے عظیم معجزات میں سے ایک اہم معجزہ یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے مختلف موقعوں پر آئندہ زمانہ سے متعلق جو پیشین گوئیاں فرمائیں، وہ اپنے اپنے وقت پر حرف بہ حرف پوری ہوئیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ نے کعبہ کے قدیم کلید بردار خاندان کے ایک فرد شیبہ بن عثمان بن طلحہ کو کعبہ کی کنجیاں حوالے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’یہ کنجیاں ہمیشہ کے لئے سنبھال لو، تم سے یہ کنجی ظالم شخص کے سوا کوئی نہیں چھین سکے گا‘‘۔ پس آج تک یہ کلید بنو شیبہ ہی کے پاس ہے اور یزید بن معاویہ کے سوا ان سے کسی نے نہیں چھینی۔ (رحمۃ للعالمین۳، صفحہ۱۷۱)
آپﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا‘‘ (مسلم شریف) یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمائی تھی، جب دنیا میں کسریٰ کا نام سب سے بڑے حکمراں کے طورپر لیا جاتا تھا۔ اسی طرح آپﷺ نے فرمایا ’’جب قیصر ہلاک ہو گیا تو اس کے بعد کوئی اور قیصر نہ ہو سکے گا‘‘۔ چنانچہ فتح قسطنطنیہ کے بعد قیصروں کا دور ختم ہو گیا۔ واضح رہے کہ کسریٰ ایران کے بادشاہ کا لقب ہے اور قیصر ملک روم کے بادشاہ کا لقب ہے۔ جس طرح مصر کے بادشاہ کو ’’فرعون‘‘ کہا جاتا تھا۔

آپﷺ نے مختلف مواقع پر مسلمانوں کے لئے فتوحات کی خبریں دیں، جو ان حالات میں بظاہر ممکن نظر نہیں آتی تھیں۔ غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھودنے کے دوران ایک سخت پتھر نکل آیا، جسے صحابہ کرام توڑنے سے قاصر رہے، تو آپﷺ نے کدال لے کر اس پر ایک ضرب لگائی۔ ضرب کے بعد چنگاری اڑی تو آپﷺ نے بلند آواز سے فرمایا ’’وتمت کلمۃ ربک صدقا وعدلا لامبدل لکلمۃ‘‘۔ صحابہ کرام نے وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا ’’میری اس ضرب سے جو روشنی پھیلی ہے، اس میں مجھے کسریٰ کے محلات اور اس کے آس پاس کی اشیاء دکھائی دی ہیں‘‘۔ صحابہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! ان کی فتح کے لئے دعاء کیجئے‘‘۔ آپﷺ نے دعاء فرمائی، پھر اسی طرح کدال سے دوسری ضرب لگائی۔ اس سے روشنی نکلی تو آپﷺ نے اپنے سابقہ کلمات دہرائے۔ صحابہ کرام نے وجہ دریافت کی تو فرمایا ’’مجھے اس ضرب میں قیصر کے شہر اور اس کے آس پاس کے علاقے نظر آئے ہیں‘‘۔ حاضرین نے ان کی فتح کے لئے بھی دعاء کی درخواست کی، جو قبول ہوئی۔ تیسری ضرب میں حبشہ کے شہر اور اس کے گاؤں نگاہوں کے سامنے آئے تو فرمایا ’’حبشہ والوں سے تعرض نہ کرنا، تاوقتیکہ وہ تم سے تعرض نہ کریں‘‘۔ (النسائی، کتاب الجہاد۲۔ صفحہ ۶۴،۶۵)

اس کے علاوہ نام بنام مختلف ملکوں کی فتح کی بشارتیں بھی منقول ہیں، مثلاً شام کی فتح کی خبر دیتے ہوئے فرمایا ’’شام فتح ہوگا تو لوگ اپنی سواریوں کو ہانکتے ہوئے مع اہل و عیال وہاں رہائش پزیر ہونے کے لئے جائیں گے اور اگر وہ جانیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے‘‘ (مسلم شریف) اسی طرح آپﷺ نے مصر فتح ہونے کی خوش خبری دی اور فرمایا ’’تمہارے لئے عنقریب مصر فتح ہوگا اور یہ قیراط کی سرزمین ہے۔ جب تم اس کو فتح کرو تو وہاں کے باشندوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا، کیونکہ تمہارے اور ان کے درمیان رشتہ ہے (حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ اور حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہما مصر کی تھیں)‘‘۔ چنانچہ یہ تمام علاقے مسلمانوں نے فتح کئے اور ان پر اپنی حکومت و سیادت قائم کی۔

آپﷺ نے پورے جزیرۂ عرب میں مثالی امن و امان قائم ہونے کی اطلاع دی اور فرمایا ’’اے عدی! کیا تم نے شہر حیرہ دیکھا ہے؟‘‘۔ عدی نے کہا ’’نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! البتہ مجھے اس کے حالات معلوم ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اگر تم زندہ رہو تو دیکھو گے کہ حیرہ سے ایک ہودج نشین عورت چل کر خانہ کعبہ کا طواف کرے گی اور اس کو اللہ تعالی کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا‘‘۔ حضرت عدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک ہودج نشین عورت حیرہ سے نکل کر خانہ کعبہ کا طواف کرنے آتی ہے اور اسے اللہ کے سواء کسی کا ڈر نہیں ہوتا‘‘ (بخاری، کتاب المناقب باب۲۵، حدیث۳۰۹۵) ایک ایسے ملک اور ایسے معاشرہ میں جہاں دن دہاڑے مردوں کے قافلے لوٹ لئے جاتے تھے، اس قسم کی پیشین گوئی اور اس کا پورا ہونا دونوں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانے میں ایک تعداد مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو گئی، جو خوارج کہلائی۔ انھوں نے حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنی جماعت کو الگ کرلیا۔ اس اہم فتنہ سے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد پیشین گوئیاں موجود ہیں، مثال کے طورپر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ’’اس اثناء میں کہ ہم لوگ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، اس وقت آپﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ بنو تمیم کا ایک شخص ’’ذوالخویصرہ‘‘ آیا اور کہنے لگا ’’یارسول اللہ! انصاف کریں‘‘ (اس نے یہ بات اپنی خبث باطنی کی بناء پر کہی تھی) آپﷺ نے فرمایا ’’تیرا ناس ہو، اگر میں نے انصاف نہ کیا تو کون انصاف کرے گا؟ تو ناکام اور خسارے میں رہے گا‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن ماردوں؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اسے جانے دو، اس لئے کہ اس کے ایسے ساتھی ہیں کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے سامنے اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے سامنے حقیر جانوگے۔ وہ قرآن پڑھیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ جائے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشانے سے لگ کر نکل جاتا ہے (اس کے پھل (نوک) اور باقی حصہ پر کوئی نشان نہیں رہتا) ان کی نشانی ایک سیاہ رنگ کا شخص ہے، جس کا ایک ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح پلپلا ہوگا۔ وہ لوگوں میں اختلاف کے وقت نکلیں گے‘‘۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے جنگ کی اور میں ان کے ہمراہ تھا۔ انھوں نے مذکورہ شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ تلاش کرکے لایا گیا، یہاں تک کہ میں نے اس کو آپﷺ کے بیان کردہ وصف کے مطابق پایا‘‘۔ (البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں انسانی جان کی عزت و حرمت کا یہ عالم تھا کہ عام حالات میں قتل و خون کا شاذ و نادر ہی کوئی واقعہ پیش آتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کی جان و مال کا احترام کرتے تھے، لیکن بہت جلد وہ دَور بھی آیا جب مسلمانوں میں پھوٹ اور انتشار ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی صادق آئی۔ آپﷺ نے فرمایا ’’زمانہ قریب آگیا ہے کہ عمل گھٹ جائے گا، لالچ بڑھ جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ’’ہرج‘‘ کی کثرت ہوگی‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’ہرج کیا ہے‘‘ تو فرمایا ’’قتل قتل‘‘۔ (البخاری، کتاب الفتن، باب ظہور الفتن بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ)

ایک اور حدیث شریف میں فرمایا ’’دیکھو میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ‘‘ (بخاری، کتاب الفتن، بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ) چنانچہ آج یہ سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مسلمان ہی ہو گئے ہیں اور دنیا کے ہر گوشہ میں قتل و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔