مریض کی عیادت … دینی اور معاشرتی فریضہ

سید متین علی شاہ قادری

عیادت ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ اس کے معنیٰ صرف بیمار پرسی ہی نہیں بلکہ اس کے مفہوم میں غم خواری ، تیمارداری اور خدمت گزاری بھی شامل ہے ۔ شریعت اسلامیہ نے بیماروں سے ان کی بیماری اور لاچاری کے سبب بہت سے فرائض معاف یا کم کردئے ہیں جن کی ادائیگی ایک عام صحت مند انسان کے لئے ضروری ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بیمار پر کوئی تنگی نہیں رکھی گئی ‘‘ ( سورہ نور)
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں ۔ سلام کا جواب دینا ، مریض کی عیادت کرنا ، جنازہ کے ساتھ چلنا ، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کا جواب دینا ۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی مسلمان صبح کو کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو فرشتے شام تک اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں اور وہ جب شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح تک اس کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت مروی ہے سرکاردوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا مریض کا کراہنا تسبیح کے برابر ہے اور اس کا چیخنا چلانا لاالہٰ الااللہ کے برابر ہے اس کا سانس لینا صدقہ اور اس کا بستر پر سونا عبادت ہے اور ایک پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف لوٹنا ایسا ہے جیسا راہِ خدا میں دشمن سے جنگ لڑ رہا ہوں اور فرشتوں سے فرماتا ہے کہ میرے بندے کے لئے اس عمل سے بہتر ثواب لکھتے رہو جتنے کہ وہ حالتِ صحت میں کرتا رہا ،جب مریض تندرست ہوکر چلنے لگتا ہے تو گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسا ابھی پیدا ہوا ہوں ۔
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جب بندہ مومن بیمار ہوتا ہے تو بائیں شانے والے فرشتے سے کہا جاتا ہے کہ اس کے گناہوں کو لکھنا بند کردو اور دائیں شانے والے فرشتہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھو جو اس سے سرزد ہوئی ہیں۔ حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا جب کوئی بندہ بیمار ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اُس کی طرف دو فرشتے بھیجتا ہے جاکر دیکھو میرا بندہ کیا کہتا ہے ؟ اگر بیمار الحمدﷲ کہتا ہے تو فرشتے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کاقول عرض کرتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے اگر میں اس بندہ کو اس بیماری میں موت دے دی تو اسے جنت میں داخل کرونگا اور اگر صحت عطا کی تو اُسے پہلے سے بہتر پرورش کرنے والا گوشت اور خون دونگا اور ا س کے سب گناہ معاف کردوں گا ۔
اسلام نے بیمار پرسی ، تیمارداری کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے دامنِ رحمت کو وسعت دیتے ہوئے غیرمسلموں تک اسے پھیلایا ہے ۔ یہ حدیث شریف بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے ایک یہودی لڑکا بیمار ہوگیا تھا تو رحمۃ اللعلمینﷺ اس کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے ۔ آپؐ اُس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ، اس نے اپنے باپ کی اجازت لینے کی غرض سے دیکھا تو باپ نے کہا جو آپؐ کہہ رہے ہیں مان لو اس پر وہ لڑکا مسلمان ہوگیا ۔ آپؐ یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے ’’تمام تعریفیں اﷲ کے لئے جس نے اسے جہنم کی آگ سے نجات دی‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مسلم شریف کی یہ حدیث شریف مروی ہے رحمتِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اﷲ تعالیٰ بروز حشر فرمائے گا ۔ اے آدمؑ کے بیٹے ! میں بیمار ہوگیا تھا تو نے میری بیمار  پرسی نہ کی ۔ وہ عرض کریگا ۔ اے باری تعالیٰ میں تیری کیسے بیمار پرسی کرتا ؟ تو رب العلمین ہے ۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیگا تجھے معلوم نہیں تھا کہ فلاں بندہ بیمار ہوگیا تھا ، تونے اس کی بیمار پرسی نہ کی ۔ خبردار تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تو اُس کی بیمار پرسی کرتا تومجھے اُس کے پاس پاتا ۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو نے مجھے کھانا نہ دیا ، وہ عرض کریگا ۔ اے پروردگار ! تو رب العلمین ہے ۔ تجھے کس طرح کھانا کھلاتا ۔ اﷲ تعالیٰ فرمائیگا ، کیا یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھالیکن تو نے اسے کھانا نہ کھلایا ۔ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اگر تو اُسے کھانا کھلاتا تو اس کاثواب میرے یہاں پاتا ۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرمائیگا ۔ اے آدم کے بیٹے میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے پانی نہیں پلایا ۔ بندہ کہے گا ۔ اے اﷲ ، تو رب العلمین ہے ، تجھے کس طرح پانی پلاتا ؟ اﷲ تعالیٰ فرمائیگا خبردار تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا لیکن تو نے اُسے پانی نہیں پلایا۔ اگر تو نے پلاتا تو اس کا ثواب یہاں پاتا ۔
حضرت ثوبانؓ حضور اقدس ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی مزاج پرسی کرتا ہے تو وہ جنت کے پھلوں کے چننے میں مصروف رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس آجائے۔ رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں جب اﷲ تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتے ہیں تو اس کو ایسی بلا میں مبتلا فرماتے ہیں جس کی دوا نہ ہو پس اگر وہ صبر کرے تو اس کو چن لیتے اور اگر راضی رہا تو برگزیدہ کردیتے ہیں۔
عیادت سے متعلق شرعی احکام یہ ہیں کہ مریض کے پاس جائیں اور اس کی مزاج پرسی کے بعد چند لمحات بیٹھیں اور واپس آجائیں تاکہ تیمارداروں کو مریض کی تیمارداری میں کچھ رکاوٹ نہ ہو ہاں اگر مریض یا تیمارداروں کا اصرار ہو تو رک سکتے ہیں اور مریض کی پیشانی پر داہنا ہاتھ رکھ کر آیاتِ شفاء اور سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کریں اور تسلی دیں کہ  ان شاء اللہ تعالیٰ آپ بہت جلد شفا یاب ہوجاؤ گے ۔