مرکز اور وادی کشمیر

فضاء میں جس کی کبھی تھی گل و لالہ کی مہک
آج بارود کی بدبو سے بھرا جاتا ہے
مرکز اور وادی کشمیر
وادی کشمیر کو دہشت گردی ، تشدد ، بدامنی کی آگ میں سلگتا چھوڑ دینا موجودہ مرکزی حکومت کی تاریخی غلطی ہوگی ۔ گذشتہ چار سال سے کشمیر کے اندر حق و ناحق طریقہ سے جو حالات پیدا کئے جارہے ہیں اس کے سیاسی نتائج سنگین نکلیں گے ۔ حکومت ہند کو اپنی ذمہ داریوں کا دیانتدارانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ کشمیر کے حالات کو بہتر بنانے کے بجائے بگاڑنے والی صورتحال برپا کرنے والوں کو ہرگز اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ سرحدی چوکسی اور وادی کشمیر کے چپہ چپہ میں سیکوریٹی فورس کی سرگرمی کے ساتھ تعیناتی کے باوجود دہشت گرد آسانی سے وادی میں در اندازی میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ تازہ واقعہ میں یہ تشویشناک رپورٹ سامنے لائی گئی ہے کہ وادی کشمیر میں جیش محمد کے دہشت گردوں کی جانب سے چھپ کر حملے کرنے کا نیا گروپ ابھرا ہے یہ گروپ سیکوریٹی ایجنسیوں کے لیے تشویش و فکر مندی کا باعث ہے ۔ وسط ستمبر سے اب تک 3 سیکوریٹی جوان ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس کی وجہ سے لا انفورسمنٹ ایجنسیوں نے اپنی کارروائیوں کی اسٹرائیجک کو تبدیل کردیا ہے ۔ پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے کئے جانے والے اس طرح کے حملوں کو ناکام بنانے میں سیکوریٹی فورس نے اپنی عصری صلاحیتوں کا مظاہرہ ضرور کیا ہے مگر ہر گذرتے دن کے ساتھ حملہ آوروں کی کارروائیوں میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے تو یہ سیکوریٹی فورس کے لیے غور طلب امر ہے ۔ چھپ کر حملے کرنے کے گروپ ابھر رہے ہیں ۔ گذشتہ ماہ ضلع پلوامہ میں ایسے ہی دو دہشت گردوں کو پولیس نے ہلاک کیا جو پولیس عملہ کو نشانہ بنا چکے تھے ۔ اس کے بعد اگرچیکہ سیکوریٹی ایجنسیوں نے جن میں فوج ، سی آر پی ایف اور جموں و کشمیر پولیس نے اپنے جوانوں اور عہدیداروں کو نئے رہنمایانہ خطوط جاری کیے ہیں ان جوانوں کے لیے عصری سہولتیں بھی فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ سیکوریٹی فورس کے کیمپس کے اطراف سیکوریٹی کو بڑھاتے ہوئے مستقبل میں ہونے والے اس طرح کے حملوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کی سرزمین پر سرگرم تنظیموں کے خلاف ہندوستان نے ہمیشہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ میں آواز اٹھائی ہے ۔ عالمی دہشت گردی کی فہرست میں جیش محمد کے سربراہ مولانا سعود اظہر کا نام شامل کرنے کے مطالبہ کو بعض گوشوں سے اعتراض کے بعد روک دیا گیا ۔ یہ دہشت گرد ہر مرتبہ نئے عصری ہتھیاروں سے لیس نظر آتے ہیں ۔ اس سے ہندوستانی سیکوریٹی فورس کو موثر تیاری کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت ہند نے ملک کے دفاعی شعبہ کو اسکامس ، بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کی نذر کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو فراموش کرتی ہے ۔ گذشتہ اگست میں جنوبی کشمیر کے علاقہ پلوامہ کے ڈسٹرکٹ پولیس لائن پر کئے گئے دہشت گرد حملہ میں جن ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا اس میں اسٹیل کور بلیٹ کا استعمال ہوا تھا ۔ سیکوریٹی جوانوں کے ساتھ ہوئے انکاونٹر میں 8 سیکوریٹی جوان ہلاک ہوئے تھے ۔ یہ الزام ہے کہ وادی کشمیر کو امن کی جانب لے جانے کے لیے جن سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے اس پر موجودہ حکومت نے غور کرنا ہی ترک کردیا ہے ۔ وزارت خارجہ کا صرف یہی ایک کام دیکھا جارہا ہے کہ جب کبھی وادی میں ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔ دفتر خارجہ پر پاکستانی ہائی کمشنر کے دفتر کے عہدیدار کو طلب کر کے احتجاج کیا جاتا ہے ۔ یہ ایک معمول کا عمل بنادیا گیا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان کو اس کے عہد کی جانب توجہ دلاتے ہوئے وادی کشمیر کے تقاضوں کو پورا کرنے کی پہل کی جائے ۔ پرامن حل نکالنے کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر بیانات دیتے جاتے رہے ہیں جیسا کہ گذشتہ چار دن قبل وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کشمیر کا دورہ کرتے ہوئے پاکستان کے شہری کس کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار رہنے کا ادعا کیا تھا ۔ انہوں نے وادی میں امن کی بحالی کی واحد راہ جمہوری عمل قرار دیا تھا ۔ بلا شبہ جمہوریت کے ذریعہ ہی مسائل کی یکسوئی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ آخر جمہوری عمل کی پہل کب کی جائے گی ؟ ریاست جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو تعمیری راہ پر لانے کی خواہش تو ظاہر کی جارہی ہے لیکن ان پر بندوقیں تان کر امن لانے کی مشق کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔