مخلص سیاستدانوں کی کمی

دُنیا میں بھی جنت وہ دکھانے کے ہیں ماہر
اور ہم بھی تصور کو سمجھتے ہیں حقیقت

مخلص سیاستدانوں کی کمی
مظفرنگر فسادات پر قابو پانے میں حکومت اترپردیش کی ناکامی پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ملک کے حکمرانوں کو ان کے دستوری فریضہ کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی ہے کہ عوام کی زندگیوں، املاک و اثاثہ جات، عزتِ نفس کا تحفظ کرنا حکمرانوں کا فرض ہے۔ اترپردیش کے ضلع مظفرنگر میں جو کچھ ہوا، وہ گجرات، آسام اور اسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا تسلسل تھا۔ اترپردیش میں لوک سبھا کے 80 حلقوں کے لئے آئندہ چند دنوں میں رائے دہی ہونے والی ہے۔ مظفرنگر فسادات کے حوالے سے سارے ملک کے عوام خاص کر مسلمانوں کو اپنا سیاسی محاسبہ کرنے اور فرقہ پرستوں کے بڑھتے قدموں کی آواز محسوس کرنے کا ایک بہترین موقع مل رہا ہے۔ جن سیاستدانوں نے آزادی کے بعد سے مسلمانوں کا سکون لوٹا ہے، اب دوبارہ یہ سیاستداں مسلمانوں پر اپنا جادو چلانے کی کوشش کریں گے تو مسلمانوں کو یہ طئے کرلینا ہوگا کہ وہ ان سیاستدانوں کو ہرگز کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ اپنی الیکشن کی تیاری کے ساتھ بلند بانگ تقریریں اور کئی وعدوں و تیقنات کے ساتھ پارٹی منشور تیار کرنے والے سیاستدانوں نے ہر جلسہ اور ریالی میں عوام کو گمراہ کرنے والی تقریر بھی تیار کرلی ہے۔ چھ ماہ قبل اس ملک کی ایک ریاست کے مسلمانوں کو فرقہ پرستی کی آگ میںجھونکنے والے پوری آزادی اور ڈھٹائی کے ساتھ میدانِ سیاست میں ہیں۔ عدلیہ سے بھی انھیں چھٹی مل گئی ہے۔ جو ملزمین مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکے ہیں، وہ اپنے ہاتھوں کو جوڑکر ووٹ مانگنے دکھائی دے رہے ہیں۔ مظفرنگر میںکئی مسلم خاندان اب بھی عدم تحفظ کا شکار ہوکر زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں کامل تحفظ فراہم کرنے کی کوئی دیانتدارانہ کوشش نہیں کی گئی۔ ایک ضلع کے عوام کل تک ہندو۔ مسلم شیر و شکر کی طرح رہتے تھے۔ ان میں نفرت پیدا کرکے آپس میں کٹر دشمن بنایا گیا۔ مظفرنگر کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آئے گی کہ مسلم خاندان ہر روز ایک کرب ناک زندگی سے گزر رہے ہیں۔ اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی قائدین کا مقصد امن قائم کرنا نہیں بلکہ وقت گزارتے ہوئے اپنے لئے کچھ سیاسی مفاد حاصل کرنا ہے۔ ایسے میں انتخابات کے دوران انھیں ممکن طور پر نفرت کی سیاست کو ہوا دے کر ووٹ حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے، سپریم کورٹ کی سرزنش کے باوجود وہ مظفرنگر کے عوام کے لئے کوئی راحت کا کام نہیں کررہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جارہے رویہ نے اس طبقہ کی تجارتی سرگرمیوں کو بھی ٹھپ کردیا ہے۔ فسادات کے چند ماہ بعد مسلمانوں کو حکومت اترپردیش کی بے اعتنائی کا اندازہ ہوا ہے۔ ان کو احساس ہوا ہے کہ سماج وادی پارٹی نے ان سے غداری کی اور فساد متاثرین کو امداد کے نام پر جو کچھ معاوضہ دیا گیا، وہ ایک طرح سے مسلمانوں کی توہین تھی۔ بے گھر مسلم خاندانوں کے ساتھ کیا گیا حکومت کا سیاسی مذاق عام انتخابات میں اس کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ یوپی کی سیاست میں ایک اور تشویشناک خبر یہ آرہی ہے کہ بی جے پی کو 80 کے منجملہ 42 نشستیں ملنے والی ہیں۔ اگر سروے رپورٹ درست ثابت ہوجائے تو نریندر مودی کے لئے یوپی میں ہونے والی رائے دہی ایک نعمت ثابت ہوگی۔ ایسے میں مسلم رائے دہندوں کا ووٹ رائیگاں جائے گا تو اس کے منفی اثرات پورے ملک پر مرتب ہوں گے۔ فسادات متاثرین کے ساتھ ہمیشہ نااِنصافی ہی ہوتی آرہی ہے۔ مسلمانوں کو اتھاریٹی اور حکومت دونوں سے ہی شکایت رہتی ہے کہ ان دونوں نے اِنصاف نہیں کیا۔ اس وقت ملک کے انتخابی جنگ میں دو بڑی پارٹیاں آپس میں نبرد آزما ہیں اور آمنے سامنے کھڑی ہیں۔ دیگر پارٹیوں کا موقف بھی ان ہی دونوں پارٹیوں کے درمیان منقسم ہے۔ ایسے میں جیسی قوم ویسے فرشتے کے مصداق اپنے تعصب پسندانہ کردار کے ساتھ زعفرانی طاقت کو اقتدار مل جائے تو کئی ایک تلخ واقعات اور المناک حادثے ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمان ذہن کے اضطراب اور حالات کی تبدیلیوں کو اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے نہ دیں۔ گزرے برسوں کے عمیق تجزیے کے بعد مسلم اہل علم کا یہی کہنا ہے کہ گزشتہ 66 برس کے آزمودہ سیاسی نسخہ سے چوکنا رہیں اور استحصال و ہراساں پسند عناصر سے چوکنا رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی سیاستداں مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہوتے تو کب کے تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے۔