مخالف بی جے پی محاذ کیلئے مساعی

آئندہ عام انتخابات سے قبل غیر بی جے پی جماعتوں کے محاذ کی تشکیل کیلئے کوششوں میں تیزی پیدا ہوگئی ہے ۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر و تلگودیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو نے ان کوششوں میں شدت پیدا کردی ہے ۔ جس وقت سے نائیڈو این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں اس وقت سے وہ غیر بی جے پی جماعتوں کو متحد کرنے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہوئے متحدہ مقابلہ کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اس محاذ کیلئے اپنی کٹر حریف سمجھی جانے والی کانگریس پارٹی سے تک اتحاد کو قبول کرلیا ہے اور وہ کانگریس صدر راہول گاندھی سے ملاقات کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ تلنگانہ میں انہوں نے اسمبلی انتخابات کیلئے کانگریس زیر قیادت عظیم اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی ۔ یہاں انتہائی کم نشستوں پر بھی مقابلہ کیلئے رضامند ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ دہلی میں بھی سرگرم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے دوسری علاقائی جماعتوں کے قائدین جیسے شرد پوار ‘ اروند کجریوال ‘ فاروق عبداللہ ‘ ایچ ڈی کمارا سوامی سے بھی ملاقات کی ہے اور مخالف بی جے پی محاذ کے قیام کیلئے تبادلہ خیال کیا ہے ۔ بنگلورو میں انہوں نے جے ڈی ایس کے سربراہ و سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا سے بھی ملاقات کرکے اس تجویز پر بات چیت کی ہے ۔ وہ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتابنرجی سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ 22 نومبر کو دہلی میں غیر بی جے پی جماعتوں کا ایک اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے جس میں کئی جماعتوں کے قائدین کی شرکت کا امکان ہے جو بی جے پی کے خلاف ایک وسیع تر محاذ تشکیل دیتے ہوئے مشترکہ مقابلہ کرنے پر بات چیت کرینگی ۔ چندرا بابو نائیڈو مسلسل کوشاں ہیں کہ تمام غیر بی جے پی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے کہ بی جے پی سے متحدہ محاذ بناتے ہوئے مقابلہ کیا جانا چاہئے ۔ دیگر جماعتیں بھی اس بات کیلئے تیار نظر آتی ہیں کہ بی جے پی کے خلاف ایک وسیع تر محاذ قائم ہونا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں نائیڈو کی کوششوں کو موجودہ سیاسی حالات اور پس منظر میں کافی اہمیت بھی حاصل ہوگئی ہے ۔
ملک میں جو سیاسی حالات پیدا ہوگئے ہیں اور جس طرح سے انتخابات سے قبل فرقہ وارانہ ماحول کو کشیدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے مخالف بی جے پی محاذ کی ضرورت پہلے سے زیادہ شدید ہوگئی ہے ۔ ملک کے سامنے مثالیں موجود ہیں کہ جب کبھی اپوزیشن جماعتوں نے آپس میں اتحاد کرتے ہوئے مقابلہ کیا ہے وہ بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے ساتھ کانگریس نے عظیم اتحاد قائم کیا تھا جہاں بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ بعد میں نتیش کمار نے سیاسی دھوکہ کیا اور ایک بار پھر بی جے پی کے ساتھ جا ملے ۔ اسی طرح اترپردیش میں اقتدار کی دعویدار دونوں جماعتوں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی نے پھولپور اور گورکھپور لوک سبھا حلقوں میں اتحاد کرتے ہوئے ضمنی انتخابات میں مقابلہ کیا اور بی جے پی کے طاقتور گڑھ سمجھے جانے والے ان حلقوں میں بھی انہیں کامیابی حاصل ہوئی ۔ اس طرح جن ریاستوں میں کانگریس طاقتور نہیں ہے اور علاقائی جماعتوں کا عروج ہے وہاں عظیم اتحاد یا انتخابی مفاہمت کرتے ہوئے مقابلہ کیا جاسکتا ہے تاکہ بی جے پی کو شکست سے دوچار کیا جائے ۔ جو مثالیں موجود ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت اور اہمیت کا احساس ہوجانا چاہئے ۔ انہیں ایک وسیع محاذ کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔
آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور انہیں کہیں پس منظر میں ڈھکیل کر ایک بار پھر مندر مسجد مسئلہ کو ہوا دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ بی جے پی اور اس کے ہمنوا حلقوں میں یہ احساس شائد پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کام بھروسے کامیابی حاصل نہیںکرسکتیں اس لئے رام بھروسے انتخابات لڑنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے ۔ اس حکمت عملی کو شکست دینے کیلئے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی اشد ضرورت ہے ۔ ہر جماعت کو ملک کے مفادات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اپنی جانب سے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی انا اور ہٹ دھرمی کو ترک کرتے ہوئے ایثار کے جذبہ کے ساتھ اگر یہ محاذ تشکیل دینے کی کوششیں ہوتی ہیں تو پھر ایک وسیع تر محاذ قومی یا ریاستی سطح پر تشکیل دیا جاسکتا ہے جس کا سامنا کرنا بی جے پی کیلئے آسان نہیں رہے گا ۔