محی النفوس حبیب ابوبکر العدنی رحمۃ اللہ علیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بندگانِ خدا میں سے کچھ ایسے صالحین ہیں جن کے اجساد پر موت واقع ہونے کے باوجود وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں ، جن کا ذکر ہر زمانے میں ، ہر وقت میں اور کثیر مناسبات میں کیا جاتا ہے ۔ ان کی حیات ، ان کی نسلوں میں پائی جانے والی شرافت اور احوالِ جلیلہ سے ثابت ہوتی ہے جو ان کی نسلوں میں زندہ و تابندہ نظر آتی ہیں اور یہی سِرّ حقیقی ہے ۔ ان کثیر قابل ترین نفوس کے بارے میں اﷲ رب العزت نے بیان فرمایا : ’’ایمان والے تو صرف وہی لوگ ہیں کہ جب ( ان کے سامنے ) اﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے ( تو ) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے ) خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں ) ان کے ایمان میں زیادتی کردیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں ) اپنے رب پر توکل ( قائم ) رکھتے ہیں ( اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے ) ۔
عدن ، یمن کا ایک تاریخ و آثار کا شہر ہے ، ایسا ارضِ گویا ہے جس کے ہر منظر میں نطق ہے جو دیکھنے والے کو زندگی کی گہرائی اور اہل وطن کی لمبی داستانوں میں محو کردیتا ہے ۔ اس شہر کی مساجد اور گوشے اس تاریخ کا اعلان کرتی معلوم ہوتی ہیں ، جس میں بزرگانِ دین کا سلسلہ یہاں کے کنج و محرابوں میں رہائش پذیر ہوا اور علم کے فروغ اور افادۂ عامۃ کی غرض سے خدمات انجام دیتا رہا ۔ یہاں ہر شخص اپنے آپ کو طبعی طورپر ہم آہنگ اور متفکر و متامل محسوس کرتا ہے اور ان ماضی کی داستانوں کو اپنے سامنے زندہ دیکھتا ہے تاکہ اس کا ضمیر اور قلب تمکنت و خوشی محسوس کریں۔
ان ہی مناظر میں ایک بلند ترین پہاڑ کے نچلے دامن میں مغربی جنوب کی سمت لوگوں کی نظریں ایک مسجد کی جانب کھینچی چلی جاتی ہیں جس کو مسجد الأمام ابی بکر العدنی بن عبداﷲ العیدروس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ مسجد قدیم فنِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے جوکہ امام العدنیؒ ہی کی حینِ حیات آپ کے ابتدائی دورِ عدن میں نویںصدی ہجری میں تعمیر ہوئی ۔ اس مسجد کی تعمیر کے وقت سے ہی یہاں جملہ مریدین جمع ہوئے اور ان کی تربیت کی جاتی اور غرباء و فقراء کو کھانا کھلایا جاتا اور طالبانِ علم کی پیاس بجھائی جاتی ہے ۔ یہ مسجد اپنی خوبصورت اور اونچی مینار اور علم ہندسی کی بہترین طرز کا شاہکار ہے جو دیگر مساجد سے اس کو ممتاز کرتی ہے اور اس کے اوپر ایک دلکش سفید گنبد تعمیر ہے اور اس میں متعدد برآمدے ہیں۔ ٹھیک اس گنبد کے نیچے ایک مزار ہے یہ مزار مقدس امام العدنیؒ کی ہے ۔

ولادت و طفولیت : آپؒ کے والد ماجد امام حبیب عبداﷲ العیدروس الاکبر پر ایک مرتبہ خاص کیفیات وارد ہوئیں اور کچھ دیر بعد جب طبیعت مبارکہ حسب معمول کی طرف لوٹی تو آپ کے طلباء و حواررین نے اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو امام العیدروس الاکبرؒ نے فرمایا کہ مجھے ابھی ایک ولدِ صالح کی بشارت دی گئی جو اﷲ تعالیٰ کی خاص مہربانی کے سائے میں ہوگا ، جس کے اخلاق بہت ہی عمدہ و اعلیٰ ہوں گے اور وہ اہل ولایت کا نگینہ ہوگا ۔ پس والدِ گرامی اُسی روز سے اس فرزند کی آمد کے منتظر تھے اور یہ بدرِ کمال جمعہ کی رات یا دوشنبہ کے دن ۸۵۱ھ کی ابتداء میں عالم شہور میں وجود پذیر ہوا ۔ آپؒ کا سلسلۂ نسب یوں ہے غوث الکبیر، الامام الفقیہ ، محی النفوس سیدنا الحبیب ابوبکر العدنی بن عبداﷲ العیدروس الاکبر بن ابوبکر السکران بن عبدالرحمن السقاف بن محمد مولی الدویلۃ بن علی مولیٰ الدارک بن علوی الغیور بن الفقیہ المقدم محمد بن علی بن محمد صاحب مرباط بن علی خالع قسم بن علوی بن محمد صاحب الصومعہ بن علوی صاحب السمل بن عبیداﷲ صاحب العرض بن امام المہاجر احمد بن عیسیٰ الرومی بن امام محمد النقیب بن امام علی العریضی بن امام جعفر الصادق بن امام محمد الباقر بن امام علی زین العابدین بن امام الشھید حسین السبط بن امام علی بن ابی طالب و سیدتنا فاطمۃ الزھراء بنت سیدنا و حبیبنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ۔(کتاب المشرع)
والد گرامی نے آپ کی نشوونما کی خاص خیال رکھا اور آپؒ کی روحانی تربیت بھی ابتداء ہی سے کی جانے لگی ۔ آپ کے چچا شیخ علی بن ابوبکر السکرانؒ اور استاد گرامی شیخ سعد بن علی مذحجؒ نے بھی آپؒ کی تربیت اور حیات و تعلیم میں کافی گہرااثر چھوڑا اور یہی تین افراد امام العدنیؒ کی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل رہے ، جنہوں نے آپؒ کا ہر قدم پر ساتھ دیا اور آپؒ کے قلب میں ظاہری و باطنی علوم کو منتقل فرمایا ۔
آپ کی تعلیم کا آغاز بہت کم سنی میں ہی ہوگیا تھا اور آپ مدرسہ جاکر قرآن کی تلاوت اور دیگر ابتدائی علوم حاصل کرنے لگے تھے ۔ آپ ؒ کے والد کو تعلیم کی اتنی پرواہ تھی کہ خود بھی اپنے فرزند کے ساتھ حلقاتِ درس میں تشریف فرما ہوتے اور خود بھی اسباق کو سنا کرتے تھے اور جب امام العدنیؒ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے دوسری سورت کی آیات متشابھات کے سبب پڑھنے لگتے یا کوئی غلطی کرتے تو والد ماجد اتنا انتظار فرماتے کہ وہ خود اپنی غلطی کو سمجھ جاتے اور اس کی تصحیح فرمالیتے تھے۔ پس امام العدنیؒ کی عمر مبارک صرف سات (۷) سال ہی تھی کہ آپؒ حافظ قرآن ہوگئے اور بعد ازاں اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کا شرح صدر فرمایا اور قرآن کی اعلیٰ ترین فہم و بصیرت سے آپؒ کو نوازا ۔ اسی عمرمیں آپؒ کے والد نے کتب اسلامی کی تعلیم کا آغاز فرمایا اور آپؒ علومِ تفسیر ، حدیث ، فقہ و اصول ، تاریخ و لغت کے حصول میں مشغول ہوگئے ۔ آپؒ خاص طورپر اپنے والد کے مؤلفات و مصنفات کو پڑھنا پسند فرماتے تھے ۔ اس دوران امام العیدروسؒاپنے فرزند کے مطالعہ کے میلان کو دیکھتے ہوئے ان کی رہبری و رہنمائی فرمایا کرتے تھے ۔

مشائخ او رتعلیم : اﷲ تعالیٰ نے امام العدنیؒ کو انتہائی کم عمر میں اور کم وقفہ میں اپنے اپنے فن کے کامل شیوخ سے استفادۂ کاملہ عطا فرمایا اور ان تمام شیوخ سے آپؒ کو اجازت بھی حاصل رہیں جن سے آپ کاتعلق رہا ۔
امام العدنیؒ کے تلامذہ اور صحت یافتگان : امام العدنیؒ سے استفادۂ علم و معرفت کرنے والوں کا دائرہ بہت وسیع ہے ، یمن کے تقریباً تمام حصوں اور حجاز و زیلع وغیرہ میں بھی استفادہ حاصل کرنے والوں کی کوئی حد نہیں تھی اس لئے آپ کے معاصر ، مریدین و تلامذہ اور آخذین کا شمار نہیں۔
آپ کی تعلیمات : اکثر نافرمانیاں ، گناہ ، فسق و فجور رات ہی کے وقت میں ہوتے ہیں لہذا امام العدنیؒ رات کو لوگوں کو جمع فرماتے اور محفل ذکر و فکر اور اصلاحِ احوال ہرروز منعقد فرماتے جو صبح فجر تک جاری رہتی اور آپؒ فجر کی امامت فرماتے اور لوگوں کو اس دن کا خرچ اپنے جیب سے ادا فرماتے اور کہتے کہ سیدھے گھر جانا اور آرام کرنا ۔
وصالِ مبارک : آخری سانس تک آپؓ نے یمن ہی کو اپنا مسکن بنائے رکھا یہاں تک کہ ۱۴شوال المکرم ۹۱۴ کو آپؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنی مسجد العیدروس کے بالکل متصل مدفون ہوئے ۔ بعد ازاں سلطان عامر بن عبدالوھاب نے مسجد کے ساتھ ہی متصل ایک مدرسہ بھی تعمیر کروایا اور یہ مدرسہ آج تک جاری ہے اور یہاں سے ہزارہا طلباء علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں اور سیراب ہوکر لوٹتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں امام العدنیؒ کی حیات سے اصلاحِ احوال نصیب فرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے معمور فرمائے اور قیامت کے دن آپؒ کے ساتھ مبعوث فرمائے ۔
آمین بجاہ سیدالمرسلین و آلہٖ الطیبین (م ح س ا )