محمد عبدالسبحان خان واقعۂ معراج النبی ﷺ ایک عظیم معجزہ

ارشاد باری تعالی ہے ’’ پاک ہے وہ ذات (اللہ ) جس نے رات کے وقت اپنے بندے ( حضرت محمد ﷺ ) کو مسجد حرام (مکہ معظمہ ) سے مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس ) تک سیر کرائی ، جس کے اطراف ہم نے برکتیں رکھی ہیں ، تاکہ آپ کو اپنی نشانیاں دکھائیں ۔ بے شک سننے والا دیکھنے والا تو وہی اللہ ہے ‘‘۔ ( سورہ بنی اسرائیل )
’’ اسریٰ ‘‘ کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں ۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جانے کو اسریٰ کہتے ہیں ۔ ’’ معراج ‘‘ کے لغوی معنی عروج کی انتہا کے ہیں ، چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرش سے عرش پر تشریف لے گئے تھے ، اسی لئے اس واقعہ کو ’’ معراج ‘‘ کہتے ہیں ۔ معراج کے متعلق تین باتیں بڑی اہم ہیں( ۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئے (۲) آپ جاگتی ہوئی حالت میں تشریف لے گئے (۳) آپ ﷺنے اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھا ۔
نبوت کے بارہویں سال ماہ رجب المرجب کی ستائیسویں شب میں حضور اکرم ﷺ کو معراج شریف ہوئی ۔ حضور اکرم ﷺجب مسجد حرام میں آرام فرما تھے کہ ( بہ روایت دیگر حضرت اُمّ ہانی کے گھر استراحت فرما تھے بعدہ حطیم میں بھی استراحت فرما ہوئے ) حضرت جبرئیل امین اللہ کے حکم سے فرشتوں کی ایک بہت بڑی جماعت کو ساتھ لیکرحاضر خدمت ہوئے اور اپنی آنکھوں کو حضور اکرمﷺ کے تلووں پر ملنے لگے ، جس کی ٹھنڈک سے آپ بیدار ہوئے تو جبرئیل امین نے عرض کی ’’ اللہ تعالی نے آپؐ کو یاد فرمایا ہے ‘‘ ۔ چنانچہ تمام فرشتوں کو استقبال کے لئے ایستادہ کیا گیا ۔جنت کی حوروں کو آراستہ و پیراستہ کیا گیا ، اور اس وقت تمام قبور سے عذاب موقوف کردیا گیا۔
حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام پیغمبروں کو آپ کی پیشوائی کے لئے آمادہ کیا گیا اور آپ کے لئے ایک براق ( ایک بجلی کی رفتار والی سواری ) لایا گیا ۔ حضور ﷺ براق پر سوار ہوگئے ، جبرئیل امین نے براق کی لگام پکڑی اور حضرت میکائیل نے رکاب تھاما اور آپ ﷺکے دونوں جانب اسی ہزار فرشتے نور کی قندیلوں کو ساتھ لئے ہوئے چلے ۔ آپ ﷺ کو معراج سے پہلے برزخ کی بھی سیر کرائی گئی ۔ برزخ جو اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے ۔
حضور اکرمﷺ ان واقعات کو ملاحظہ فرماتے ہوئے بیت المقدس پہنچے جہاں تمام انبیاء اور بے شمار فرشتے آپ کے منتظر تھے ۔ اس کے بعد بیت المقدس میں حضرت جبرئیل امین نے اذان دی اور اقامت کہی اور بے شمار صفیں باندھی گئیں ۔ حضور اکرمﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی ، اسی لئے آپ کو امام الانبیاء کا لقب عطا ہوا ۔اس کے بعد آپ جبرئیل امین علیہ السلام اور دیگر فرشتوں کے ساتھ زمین سے آسمان کی طرف روانہ ہوئے ۔
حضور اکرام ﷺ سدرۃ المنتہی کے مقام پر پہنچے تو یہاں پر ایک بیر کا درخت دیکھا ، جس کی ٹہنیاں سونے کی اور پتے ہاتھی کے دانت کے برابر اور پھل گھڑے جیسے بڑے بڑے تھے۔ اس درخت کے پاس آپ نے ایک نہر دیکھی ، جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ، مشک سے زیادہ خوشبودار تھا ، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا ’’ یا رسول اللہ ! یہ حوض کوثر ہے ‘‘ ۔ یہاں سے حضرت جبرئیل امین علیہ السلام رخصت ہونے لگے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے سبب پوچھا ۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اگر میں یہاں سے ایک بال برابر بھی آگے بڑھا تو اللہ کی تجلی سے میرے پر جل جائیں گے ۔
حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ ’’میں نے عرش کے قریب پہنچ کر ایک امرعظیم دیکھا ، جس کو زبان بیان نہ کرسکے ، اسی ذوق و شوق میں میرا وجود محو لقائے کبریا تھا‘‘ ۔ یعنی اللہ کی ملاقات اور دیدار الہی میں آپ مصروف تھے۔ فرمایا کہ اس وقت مجھ کو علم اولین و آخرین عطا ہوا ۔ میرا دل اس سے نورانی اور روشن ہوگیا اور اس وقت میرے رب نے وہ دکھایا جو کسی نظر نے آج تک دیکھا ہے اور نہ دیکھے گا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ سنے گا ۔ اس کے علاوہ آپ اور اللہ تعالی کے درمیان کیا کیا باتیں ہوئیں ، وہ اسرار ہیں جسے کوئی بھی نہیں جانتا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کی بخشش اور مغفرت کی دعا مانگی ۔ ارشاد ہوا کہ آپ کے لئے ستر ہزار گنہگاروں کو بخشا ہوں اور کیا چاہتے ہیں ۔ آپﷺ مغفرت مانگتے رہے ، اللہ تعالی ستر ہزار ستر ہزار بخشتا گیا ۔
پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا (ترجمہ)’’ہر تعریف ، نمازیں اور پاکیزہ چیزیں صرف اﷲ کے لئے ہیں، تو جواب میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ)’’ اے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم آپ پر سلام اور اﷲ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں تو اسی وقت آپ نے اپنی گنہگار اُمت کو بھی اپنے ساتھ فرمالیا اور فرمایا ’’ہم پر سلام ہو اور اﷲ کے نیک بندوں پر بھی یہ سن کر ہر فرشتے نے کہا ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اﷲ تعالیٰ کے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں‘‘۔