محسن حیدرآبادی آسماں تری لحد پر شبنم افشانی کرے

تقی عسکری ولا
محسن حیدرآبادی نے جن کا حقیقی نام سید محمد حسین تھا حیدرآباد کے پرانے شہر کے معروف محلہ نور خاں بازار میں صاحب طرز منفرد خطیب، ماہر تعلیم و شاعر مولانا سید علی محمد اجلاس کے گھر 7 جون 1937ء کو پیدا ہوئے ۔ انھوں نے دارالشفاء ہائی اسکول اور پھر نظام کالج میں تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے سائنس اور ریاضی میں گریجویشن مکمل کیا ۔ محسن حیدرآبادی کے والد سٹی کالج میں لکچرار تھے اور وظیفہ پر سبکدوشی کے بعد وہ اپنے اکلوتے فرزند کے ساتھ 1955 میں لکھنؤ منتقل ہوگئے تھے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونین بینک آف انڈیا میں ملازمت اختیار کرلی ۔ چنانچہ دوران ملازمت انھوں نے اعظم گڑھ ، لکھنؤ ، گورکھپور ، ممبئی اور ملک کے دیگر شہروں میں مختلف حیثیتوں سے حدمات انجام دینے کے بعد 1998 میں ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور پھر حیدرآباد میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ محسن حیدرآبادی کو شہر حیدرآباد سے بے پناہ انسیت تھی اس لئے انھوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنی وابستگی اور وارفتگی کے اظہار کے لئے اپنی شناخت حیدرآباد کے حوالے سے رکھی ۔ محسن حیدرآبادی حیدرآباد کے محلہ نور خاں بازار میں تولد ہوئے اور 16 جنوری کو حیدرآباد کے نور خاں بازار ہی میں وفات پائی ۔ یہاں میں یہ بھی انکشاف کرنا چاہتا ہوں کہ محسن حیدرآبادی شیعہ قوم کے جید عالم مولانا سعید  الملت کے نبیرہ ، خطیب اہلبیت علامہ آغا روحی کے ہمشیر زادے اور ڈاکٹر الیاس رضوی (آئی ایف ایس) کے برادر نسبتی تھے ۔ محسن حیدرآبادی کو بچپن ہی سے مصوری کا شغل تھا ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے دوران حیدرآباد کے ٹکنیکل اینڈ ووکیشنل محکمہ کے ڈرائنگ کے امتحان ہائر سکنڈ گریڈ میں اسکول کی طرف سے شرکت کرکے امتیازی کامیابی حاصل کی تھی ۔

محسن حیدرآبادی نے سال 2000 میں اپنے وطن حیدرآباد میں قیام پذیر ہو کر اپنے ذوق مصوری کو اس طرح جلا بخشی کہ قدیم شعراء کی تصاویر کو جمع کرکے خود اپنے ہاتھ سے دوبارہ واٹر کلر ڈرائنگ کے ذریعہ ان کو پرکشش پوٹریٹ کی صورت عطا کی اور کئی شعراء کے سوانحی خاکے مرتب کئے اور متعقدمین شعراء کے کوائف کے ساتھ ساتھ منتخب اشعار کو بھی اپنے مضامین میں شامل کیا جس سے روزنامہ ’سیاست‘ کے ایڈیٹر جناب زاہد علی خان بے حد متاثر ہوئے اور محسن حیدرآبادی کی بے پناہ ستائش کرتے ہوئے اپنے مستند اخبار میں سال 2000 سے ہر دو ہفتوں میں ایک مرتبہ متواتر شاعر کی تصویر کے ساتھ تعارف شائع کیا ۔ جس کا سلسلہ ڈھائی برس تک جاری رہا ۔ محسن حیدرآبادی نے مناسب تبدیلیوں کے ساتھ ڈاکٹر حسن الدین احمد کے تعاون سے زیور طبع سے آراستہ کیا ۔ خود انھوں نے یہ قلمبند کیا ہے کہن کاغذ پر فوٹوگرافی بذریعہ کیمرہ 1835 میں فاکس ٹالبوٹ نے پہلی بار شروع کی تھی ۔ ہندوستان میں اس کا رواج کچھ عرصہ بعد ہوا ۔ چنانچہ  مرزا غالب سے پہلے کی تمام تصویریں قلمی ہیں ۔ اس کے بعد جو تصویریں کیمرے سے لی گئی ہیں وہ کاپی کے لئے کاغذ پر ہاف  ٹون بلاک کے ذریعہ طبع ہوئی ہیں جو بہرحال اتنی واضح نہیں ہیں جتنی اصل تصاویر ۔ اس لئے میں نے شعراء کی تصاویر کو پورٹریٹ کی شکل میں کاغذ پر بنا کر واٹر کلر سے رنگین کیا پھر ان پینٹنگس کو کمپیوٹر کی مدد سے بہتر صورت دی اور پس منظر الگ سے تیار کیا ۔ محسن حیدرآبادی نے اپنے شاہکار ’’مرقع شعرائے اردو‘‘ کو محترم زاہد علی خان کے نام معنون کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ محترم زاہد علی خان نے خواب و خیال کو حقیقت سے آشنا کرنے میں مدد کی ہے ۔ وہ اس مرقع میں رقمطراز ہیں کہ ’’جب ہم چاروں طرف نظر ڈالتے ہیں تو قدرت کے حسن و جمال کے احساس کی مسرت سے دل معمور ہوجاتا ہے ۔ بعض وقت یہ مسرت موسیقی کے ارتعاش میں بدل کر گویا حسن و جمال کے حضور ہمارا نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے ۔ جب جذبات اظہار کے لئے مترنم الفاظ میں ڈھلنا چاہتے ہیں تو شعر کی زبان اختیار کرلیتے ہیں ۔ جب احساسات نقش ہونا چاہتے ہیں تو رنگین لکریں بن کر کاغذ یا کینوس پر اتر آتے ہیں اور خوبصورت تصاویر بن کر ظاہر ہوتا ہیں ، جب صہبائے خیال کی بے خود کردینے والے مسرت نشہ تاثر چھوڑنا چاہتی ہے تو وہ آبگینوں میں ڈھل کر مجسم ہوجاتی ہیں‘‘ ۔ یہ تصاویر ان کے قوت مشاہدہ کی عکاسی کرتی ہیں ۔

محسن حیدرآبادی کو اردو ادب سے مربوط رکھنے والی ملازمت نہیں ملی بلکہ بینک کی ستم ظریف ملازمت سے کسب معاش کرنا پڑا ۔ وہ ایک سرکردہ ادیب ، شاعر و مصور ہونے کے باوجود زندگی بھر اعداد و شمار ، حسابات اور جمع و تفریق کے خارزاروں میں الجھے رہے ۔ اس کے باوجود وہ فرصت کے لمحات میں رنگ ، برش اور کینوس لے کر بیٹھ جاتے تھے ۔ پتہ نہیں کس طرح خیالات حساب کتاب کے ریگزاروں سے نکل کر رامش و رنگ کی دنیا میں پہنچ جاتے تھے ۔ محسن حیدرآبادی کو شاعری ورثہ میں ملی تھی ۔ محسن حیدرآبادی کی فکر انگیز شاعری بلاغت و فصاحت نازک سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھی  ۔انھوں نے اصناف سخن غزل ، سلام ، منقبت وغیرہ میں طبع آزمائی کی اور متعدد انگریزی منظومات کا اردو میں ترجمہ بھی کیا تھا جس میں بعض نظمیں تو ایسی ہیں جو اصل کو پیچھے چھوڑ گئیں ۔ وہ منفرد طرز کے ادیب تھے ۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر سینکڑوں مضامین تحریر کئے جو ہندوستان کے متعدد اخبارات ، رسائل وجرائد میں بالتزام شائع ہوتے تھے ۔
محسن حیدرآبادی ، حیدرآبادی تہذیب کے علمبردار بھی تھے اور ایک تمدن بھی تھے ۔ وہ شمع بن کے روشن ہوئے ۔ مہتاب بن کے طلوع ہوئے ۔ آفتاب بن روشن اور شباب بن کے ٹوٹ گئے ۔ میرا یہ مضمون محسن حیدرآبادی کی خدمات عالیہ کو خراج بھی ہے اور ان کے پسماندگان کے لئے تعزیت بھی ۔ بہر نوع وہ حیدرآباد میں تولد ہوئے ، حیدرآباد میں تعلیم حاصل کی اور حیدرآباد میں رحلت کرگئے ۔