محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم

ڈاکٹر محمد کاظم حسین نقشبندی

محبت زبانی دعویٰ کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک جذبہ ہے، جو عاشق کو اپنے محبوب پر ہر شے نثار کرنے کے لئے ابھارتا ہے۔ دنیا میں بے شمار عشق و محبت کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، لیکن عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسی چاشنی ہے، جو بھی اسے چکھ لیتا ہے، دنیا کی اذیتیں اس کے پائے استقامت کو متزلزل نہیں کرسکتیں۔ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دل میں بس جانے کے بعد محبوب کو ہر چیز پر غالب کردیتی ہے، اس کے سامنے عزت و شرافت کوئی شے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتے، جب تک میں تمہارے نزدیک تمہاری جان، تمہارے مال اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین چیزیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں وہ پائی جائیں، ایمان کی حلاوت اور ایمان کا مزہ نصیب ہو جائے، ایک یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے ماسوا سے زیادہ ہو اور دوسرے یہ کہ جس کسی سے محبت کرے اللہ ہی کی خاطر کرے، تیسرے یہ کہ کفر کی طرف لوٹنا اس کو ایسا ہی گراں اور مشکل ہو جیسا کہ آگ میں گرنا‘‘۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسا عشق تھا، اس کی نظیر نہیں ملتی، جس کی وجہ سے صحابہ کرام نے نہ جان کی پرواہ کی، نہ زندگی کی تمنا، نہ مال کا خیال، نہ تکلیف کا خوف اور نہ موت کا ڈر۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا: ’’آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی محبت تھی؟‘‘۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’خدائے پاک کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں کے نزدیک اپنے مالوں، اپنی اولادوں، اپنی ماؤں اور سخت پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب تھے‘‘۔

غزوہ بدر کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے مقابلہ میں خود ان کے صاحبزادے تھے، جو ابھی کفر کی حالت میں تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کو بھی ایمان کی توفیق عطا فرمائی۔ آپ کے صاحبزادے نے عرض کیا ’’ابا جان! غزوۂ بدر میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ میرے نرغہ میں آئے تھے، لیکن باپ کی محبت غالب آگئی‘‘۔ جس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ’’لیکن اسلام و کفر کی اس جنگ میں اگر تم میرے نرغہ میں آگئے ہوتے تو میں تمھیں ہرگز نہ معاف کرتا‘‘۔ گویا صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اولاد اور والدین کی محبت پر غالب تھی اور جو چیز آپﷺ کو محبوب ہوتی وہ انہیں اپنی مرغوبات سے زیادہ عزیز ہوتی۔

زمانہ جاہلیت میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ اپنی والدہ کے ہمراہ ننھیال جا رہے تھے کہ بنو قیس نے قافلہ کو لوٹ لیا اور حضرت زید کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بعد ازاں انھیں مکہ کے بازار میں لاکر فروخت کیا، جنھیں حکیم بن حزام نے اپنی پھوپی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے خرید لیا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقد حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہا سے ہوا تو انھوں نے حضرت زید کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کردیا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کو بچے کے غائب ہونے کا بہت سخت صدمہ تھا، وہ اپنے بھائی کو لے کر حضرت زید کا پتہ لگاتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’ہم زید کا فدیہ لے کر حاضر ہوئے ہیں، اگر آپ زید کو ہمارے حوالے کردیں تو مہربانی ہوگی۔ آپﷺ تو بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور پیاسوں کو پانی سے سیراب کرتے ہیں، لہذا ایک باپ کی فریاد سن کر اس کے بیٹے کو آزاد کردیں‘‘۔ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کی فریاد سننے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اگر زید تمہارے ساتھ جانے کے لئے راضی ہیں تو بغیر فدیہ کے انھیں لے جاسکتے ہو‘‘۔ بعد ازاں آپﷺ نے حضرت زید کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’تمہارے والد اور تمہارے چچا تمھیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں، میری طرف سے تمھیں اجازت ہے کہ اگر تم یہاں رہنا چاہو تو رہ سکتے ہو اور اگر جانا چاہو تو جاسکتے ہو‘‘۔ حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ! میں اپنے باپ اور چچا کو آپﷺ پر ترجیح نہیں دے سکتا‘‘ یہ کہتے ہوئے آپ نے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ یہ سنتے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے زید! ہم نے تو تم کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے‘‘۔ جب یہ محبت بھرا منظر حضرت زید کے والد اور چچا نے دیکھا تو حضرت زید کو ساتھ لئے بغیر وہ خوشی خوشی اپنے مقام کو واپس ہو جاتے ہیں۔