مجرمانہ سازش کے الزامات سے دستبرداری کی وجوہات طلب

بابری مسجد شہادت مقدمہ
نئی دہلی 31 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے آج سینئر بی جے پی قائد لال کرشن اڈوانی اور دیگر سے ایک درخواست پر کہ اُن کے خلاف بابری مسجد شہادت مقدمہ میں مجرمانہ سازش کرنے کے الزامات سے دستبرداری اختیار کرلی جائے، وجوہات طلب کرتے ہوئے ایک نوٹس جاری کردی۔ چیف جسٹس ایچ ایل دتو کی زیرصدارت ایک بنچ نے بی جے پی قائد اور سی بی آئی کو نوٹسیں جاری کردیں۔ بابری مسجد مقدمہ کے درخواست گذاروں میں سے ایک محبوب احمد نے اڈوانی اور دیگر بی جے پی قائدین کے خلاف علیحدہ طور پر درخواستیں پیش کی ہیں۔ احمد نے اپنی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ سی بی آئی اپنے موقف میں نرمی پیدا کرسکتی ہے کیونکہ مرکز میں حکومت تبدیل ہوچکی ہے۔ قبل ازیں سی بی آئی نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست پیش کی تھی۔

الہ آباد ہائیکورٹ نے اڈوانی اور دیگر 19 افراد کے خلاف بابری مسجد شہادت مقدمہ میں مجرمانہ سازش کے الزامات سے دستبرداری کا فیصلہ سنایا تھا۔ مختصر سی سماعت کے بعد سی بی آئی نے آج تازہ حلف نامہ داخل کرنے کے لئے مزید مہلت طلب کی اور کہاکہ اپیل کے بعد مقدمہ کے حسن و قبح کا جائزہ لینے کے لئے سی بی آئی کو مہلت درکار ہے۔ عدالت نے تحقیقاتی محکمہ کو جواب داخل کرنے کے لئے 4 ہفتے کی مہلت دی۔ سپریم کورٹ قبل ازیں سی بی آئی پر الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل داخل کرنے میں تاخیر پر اُس کی سرزنش کرچکی ہے۔ سی بی آئی نے 21 مئی 2010 ء کے ہائیکورٹ کے حکمنامہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلہ کی تائید کی تھی کہ قائدین کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات سے دستبرداری اختیار کرلی جائے۔

اپنے فیصلہ میں ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلہ کی تائید کی تھی۔ اپنے فیصلہ میں ہائیکورٹ نے خصوصی سی بی آئی عدالت کے احکام کو برقرار رکھا تھا کہ اڈوانی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ونئے کٹیار اور مرلی منوہر جوشی کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات سے دستبرداری اختیار کرلی جائے۔ دیگر قائدین جن کے خلاف الزامات سے دستبرداری کا حکم دیا گیا تھا اُن میں ستیش پردھان، سی آر بنسل، اشوک سنگھل، گری راج کشور، سادھوی رتھمبرا، وی ایچ ڈالمیا، مہنت اویدیہ ناتھ، آر وی ویدانتی، پرم ہنس رام چندر داس، جگدیش منی مہاراج، بی ایل شرما، نرتیا گوپال داس، دھرم داس، ستیش ناگر اور موریشور ساوے شامل تھے۔ بال ٹھاکرے کا نام ملزمین کی فہرست سے اُن کی موت کے بعد خارج کردیا گیا ہے۔

خصوصی عدالت کے حکم کو برقرار رکھتے ہوئے ہائیکورٹ نے سی بی آئی کو اجازت دی تھی کہ اڈوانی اور دیگر کے خلاف الزامات کے سلسلہ میں رائے بریلی کی عدالت میں پیشرفت کی جائے جس کے دائرہ کار میں یہ مقدمہ شامل ہے۔ ہائیکورٹ کا مئی 2010 ء کا حکمنامہ کہہ چکا ہے کہ سی بی آئی کی نظرثانی درخواست میں جو 4 مئی 2001 ء کے خصوصی عدالت کے حکم کے خلاف داخل کی گئی ہے، کوئی بنیاد نہیں ہے۔ خصوصی عدالت نے اِن تمام افراد کے خلاف مجرمانہ سازش کے اقدامات سے دستبرداری کا حکم دیا تھا۔ مقدمات کے دو حصے ہیں۔ اڈوانی اور دیگر کے خلاف جو رام کتھا کنج ایودھیا کے شہ نشین پر 6 ڈسمبر 1992 ء کو موجود تھے، جبکہ بابری مسجد شہید کی گئی تھی۔ جبکہ دوسرا مقدمہ اُن لاکھوں نامعلوم کارسیوکوں کے خلاف ہے

جو متنازعہ عمارت کے آس پاس تھے۔ سی بی آئی نے اڈوانی اور دیگر 20 کے خلاف فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانا، دفعہ 135A ، ماورائے عدالت، قومی یکجہتی کے بارے میں بیانات دینا، دفعہ 153B جھوٹے بیانات جاری کرنا، افواہیں وغیرہ پھیلانا اِس مقصد سے کہ امن عامہ میں خلل اندازی پیدا کی جائے اور عوام کو بغاوت پر آمادہ کیا جائے، دفعہ 120B کے تحت فرد جرم عائد کیا تھا۔ بعدازاں اس میں دفعہ 120B مجرمانہ سازش قانون تعزیرات ہند سے دستبرداری اختیار کرلی کیونکہ خصوصی عدالت نے اپنے فیصلوں میں اِس سے دستبردار ہونے کا حکم دیا تھا اور اِس فیصلہ کی توثیق ہائیکورٹ نے کردی تھی۔ خصوصی عدالت کے حکمنامہ کو برقرار رکھتے ہوئے ہائیکورٹ نے سی بی آئی سے کہا تھا کہ کسی بھی وقت رائے بریلی میں مقدمہ کی سماعت یا اُس کی نظرثانی درخواست کی سماعت کی جاسکتی ہے تاہم اس میں قائدین کے خلاف مجرمانہ سازش کے الزامات نہیں ہونے چاہیں۔