مایاوتی کی علیحدگی کے بعد کانگریس کی توجہ مسلمانوں پر مرکوز 

نئی دہلی : بہوجن سماج وادی پارٹی ( بی ایس پی ) کی صدر اوراتر پردیش کی سابق وزیر اعلی مایاوتی نے اسمبلی انتخابات سے عین قبل کانگریس سے جس طرح اچانک علیحدگی اختیار کی ہے اس سے کانگریس اعلی کمان کودھچکا ضرور لگا ہے ۔اور 2019ء کیلئے عظیم اتحاد کی جاری منصوبہ بندی پر قد غن بھی لگی ہے تاہم مدھیہ پردیش کے کانگریس کے صدر کمل ناتھ نے خود کو سنبھالتے ہوئے نئی منصوبہ بندی شروع کردی ہے ۔بی ایس پی سے اتحاد نہ ہونے کی صورت میں کمل ناتھ نے سماجوادی پارٹی کے ساتھ ساتھ صوبہ کے ساڑھے آٹھ فیصد مسلم رائے دہندگان پر توجہ مرکوز کی ہے ۔

واضح رہے کہ مایاوتی نے اسمبلی انتخابات سے عین قبل پہلے چھتیس گڑھ میں کانگریس کا ساتھ چھوڑدیا ہے او راب مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی کانگریس سے الگ مکمل نشستوں پر امیدوار اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حالانکہ مایاوتی نے کانگریس صدر راہل گاندھی او ریوپی اے صدر سونیا گاندھی کی جم کر تعریفیں کی ہیں ۔او رکانگریس کے سینئر لیڈر ڈگ وجئے سنگھ سے ناراضگی کا اظہا رکرتے ہوئے انہیںآر ایس ایس او ربی جے پی کا ایجنٹ کہہ دیا ۔دراصل ڈگ وجئے سنگھ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مایاوتی پر مودی حکومت اور بی جے پی کا شدید دباؤ ہے ۔ ای ڈی او رآئی ٹی کا خوف دلاکر مایاوتی کو اتحاد سے بہت دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ان کے اس بیا ن سے مایاوتی سخت ناراض ہوگئی ہیں ۔

اور کانگریس سے دور ی اختیاری کرلی ہیں ۔ اسی کے ساتھ کانگریس نے اب مدھیہ پردیش میں مسلم رائے دہندگان پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے ، انہیں امیدوار بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ان سے رابطے بھی کیا جارہا ہے ۔ مدھیہ پردیش کی کل 230نشستیں ہیں جہاں مسلم رائے دہنگان کی تعداد 50ہزار سے ایک لاکھ ۳۰؍ ہزار تک ہے ۔ باوثوق ذارئع کے مطابق کمل ناتھ کا خیال ہے کہ اگر یہاں کے مسلم رائے دہندگان نے بے خوف ہوکر پولنگ اسٹیشن پرآئے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ کیا تومدھیہ پردیش میں بی جے پی کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔