ماہِ رمضان المبارک کی آمد سے قبل باادب بن جائیں

مرسل : ابوزہیر نظامی

ماہِ رمضان المبارک ۱۴۴۰؁ھ کی آمد آمد ہے۔ اس کا استقبال و انتظار، باادب ہوکر کریں، تو یقینا بندۂ مومن آنے والے ماہ کو کامیابی کے ساتھ پائے گا۔ ’’الأدب زینۃ المرأ‘‘ کے تحت ہرمسلمان کو چاہئے کہ وہ ادب کو اختیار کرے۔ جب تک ادب کو اختیار کیا جائیگا، تب تک مسلمان کامیاب و کامران رہیگا۔ جیسا کہ حضرت شیخ الاسلام عارف باﷲ حافظ محمدانواراﷲفاروقی رحمۃ اﷲعلیہ بانیٔ جامعہ نظامیہ مقاصدالاسلام حصہ یازدہم میں تحریر فرماتے ہیں، جسکا خلاصہ یہ ہے کہ ’’بعدحمد و صلوۃ ! اہل اسلام کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمارے دین میں ادب کی نہایت ضرورت ہے، جب تک اہلِ اسلام میں کامل طور پر ادب رہا، دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔چنانچہ صحیح حدیث شریف میں وارد ہے، جو مشکوۃ شریف میں مذکور ہے کہ ’’نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے کہ ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ ایک جماعت جہاد کریگی، پوچھا جائیگا کہ آیا تم میں کوئی صحابی بھی ہے؟ کہا جائیگا ۔ ہاں! تو اُسوقت ان کو فتح ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ ایک جماعت جہاد کریگی، پوچھا جائیگا کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے، جو صحابہ کے ساتھ رہا ہے؟ کہا جائیگا ہاں! تب ان کوفتح ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا کہ ایک جماعت جہاد کریگی۔ پوچھا جائیگا کہ تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو ان لوگوں کو دیکھاہو جنہوں نے صحابہ کو دیکھا؟ کہا جائیگا ہاں! تب ان کو فتح ہوگی۔ اس سے ظاہر ہے صحابہ کی برکت سے لوگ فتحیاب ہوا کرتے تھے۔ جو کمال درجہ کے آداب داں تھے۔ برخلاف اس کے اِس زمانہ میں بے ادبی اکثر لوگوںمیں آگئی، اسی وجہ سے بجائے ترقی، تنزل روزافزوں ہے۔ اگر ہم لوگ اپنی حالت کو درست کرلیں تو کیا تعجب کہ ہم پر پھر فیضانِ الٰہی نزول کرنے لگے۔ مگر یہی ہے کہ آدمی صرف اپنی ذات سے عمل کرلے۔ اوروں کی فکر نہ کرے۔
اختلافی زمانہ میں اپنی فکر کرنی چاہئے۔ چنانچہ اس روایت سے ظاہر ہے جو مشکوۃ شریف میں عبدا ﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہما سے ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے جب لوگوں میں اختلاف پڑجائے تو جن چیزوں کو تم جانتے ہو ان پر عمل کرو اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انکو چھوڑدو اور اپنی ذات کر فکر کرلو۔ عوام کو ان کی حالت پر چھوڑدو۔ انتہی ملخصا۔ غرض کہ کوئی کچھ بھی کہے ہمیں اس بات میں صحابہ کرام سے سبق لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے اسلام کی ابتداء انہیں سے ہوئی۔ اور قاعدہ کی بات ہے کہ جن امور سے ابتداء ہوتی ہے، وہی قابلِ استناد ہوا کرتی ہے۔ضرورتِ اتباعِ صحابہ رضی اﷲعنہم لازم ہے۔ یہی بات اس صحیح روایت سے جو مشکوۃ شریف میں ہے، ثابت ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنی اسرائیل کے بہتر(۷۲) فرقے ہوگئے تھے اور میری امت کے تہتر(۷۳) فرقے ہوجائیں گے۔وہ سب دوزخ میں جائیں گے، سوائے ایک فرقہ کے۔ صحابہ نے پوچھا وہ فرقہ کونسا ہے؟ فرمایا وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں گے۔ انتہی۔ اس روایت سے ضرورت اس امر کی ثابت ہوتی ہے کہ معاملہ آداب میں صحابہ کا طرزِ عمل کیسا رہا، تلاش کرکے ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔اﷲتعالی ہم سب کوباادب بنائے۔ آمین
(اقتباس: مقاصدالاسلام حصہ یازدہم)
zubairhashmi7@gmail.com