ماں بچے کی صحت اور حفاظت

زندگی کی آمد قدرت کا بہترین شاہکار ہے۔ زندگی سے ہی دنیا میں رونق ہے۔ جب کوئی زندگی کسی گھر میں جنم لیتی ہے تو اس گھر میں رہنے بسنے والوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔اس خوشی میں مستقبل کا خواب پوشیدہ ہوتا ہے یہی بچہ کل ماں باپ کا سہارا بنے گا اور دنیا کو آگے بڑھانے کا ذریعہ۔ تبھی تو اس کی صحت و حفاظت کی خاطر گھر کی بزرگ عورتیں اور ڈاکٹر ماں بننے والی خاتون کو ہدایتیں دیتے نظر آتے ہیں مثلا ایسی حالت میں فلاں چیز کھاؤ فلاں نہیں ، ٹھنڈے پانی میں ہاتھ نہ ڈالو ، بچہ کو کھلا نہ رکھو ، اس کے کپڑے گیلے نہ رہنے دو ، بچہ کو دھوپ دکھاؤ ، بچہ کو ماں کا دودھ پلاؤ ، دودھ پلا کر نیچے نہ لٹاؤ وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ذرا سی لاپرواہی سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ کئی گھر ایسے ہیں جہاں بزرگ خواتین نہیں رہتیں ، کچھ گھروں میں شوہر بیوی دونوں کام کرتے ہیں ایسے میں ماں بننے والی عورت کو اپنا اور اپنے بچے کا خیال کس طرح رکھنا ہے یہ انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ اس مضمون کی معارفت دھیان رکھنے لائق تمام باتوں کو آپ تک پہنچانے کی سعی کی گئی ہے۔

حمل ٹھہرنے کا علم ہوتے ہی اس کی تصدیق کرنی چاہئے۔تصدیق ہونے پر ٹیٹنس کے دوٹیکہ لگوانے ہوتے ہیں پہلا حمل ٹھہرنے پر اور دوسرا ٹیکہ ایک ماہ کے بعد۔ آنگن واڑی یا پرائمری ہیلتھ سینٹر میں اندراج کراکر ٹیکوں کا کارڈ حاصل کر لینا چاہئے جو ٹیکہ لگ جائیں ان کی تاریخ اس کارڈ میں درج کرتے رہیں۔ ہر جانچ کے وقت بلڈ پریشر ، پیشاب اور خون کی جانچ کرائیں۔ دوران حمل دس بارہ کلو وزن بڑھنا چائیے۔ آخر کے چھ ماہ میں ہر ماہ ایک کلو وزن بڑھنا ضروری ہے ، تین ماہ تک ہردن ایک گولی آئرن و فولک ایسیڈ کی لینا ضروری ہے کل ملا کر 100گولیاں کھانا چاہئے۔ کئی خواتین کو اس سے نوزیا ( دست جیسی کیفیت )کی شکایت ہوتی ہے۔اور وہ آئرن کی گولی لینا بند کر دیتی ہیں اس طرح کی شکایت ہونے پر ایک دو دن کا وقفہ کیا جاسکتا ہے لیکن 100گولیوں کا کورس پورا کرنا اور اس کا کارڈ میں اندراج کرالینا صحت کے لئے بہتر ہے۔
حاملہ عورتوں کو اپنے کھان پان پر خصوصی دھیان دینا ہوتا ہے ان کے کھانے میں سبزیاں ، پھل ، روٹی ، دال ، چاول ، دہی ، دودھ وغیرہ ہونا چاہئے۔ ماہرین صحت حاملہ عورتوں کو متوازی خوراک لینے کی صلاح دیتے ہیں حاملہ عورتوں کو زیادہ کھانا کھانا چاہئے۔ عام طور پر وہ جتنا کھاتی ہیں اس سے ایک چوتھائی زیادہ۔ آنگن واڈی سینٹر سے ملے وٹامن سے لیس کھانے کو پابندی سے لیا جائے۔دن میں کم از کم دو گھنٹہ آرام کریں اس کے علاوہ رات میں آٹھ گھنٹہ سوئیں۔ آیوڈین والے نمک کو ہی استعمال کیا جائے۔
اگر آپ کو یا گھر کے کسی شخص کو حاملہ عورت میں یہ علامتیں نظر آئیں تو جلد از جلد اسے اسپتال لے جائیں۔نہ لیجانے کی صورت میں خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مثلا سانس لینے میں پریشانی ہو ، خون کی کمی ، دورے پڑنا ، دھندلا دکھائی دینا ، سر درد ، الٹی ، پورے جسم میں سوجن کا ہونا ، دردذیح کے بنا پانی کی تھیلی پھٹ جانا ، حمل کے دوران ، ایم سی کو ہونا یا بچہ کی پیدائش کے بعد زیادہ خون کا بہنا حمل یا پیدائش کے ایک مہینہ کے دوران تیز بخار ہونا۔ یا بارہ گھنٹہ سے زیادہ درد ذیح کا ہونا وغیرہ ان تمام پریشانیوں سے بچنے کے لئے یہ صلاح دی جاتی ہے کہ آنگن واڈی یا پرائمری ہیلتھ سینٹر میں رجسٹریشن کرالیں۔ سواری کا پہلے سے ہی انتظام رکھیں تاکہ وقت پر اسپتال پہنچ سکیں۔
ولادت کے ایک گھنٹہ کے اندر ماں کا دودھ بچہ کو دینا اس کی صحت کے لئے ضروری ہے بچہ کو گرم رکھنا چاہئے پہلے چھ ماہ تک ماں کے دودھ کے علاوہ کچھ بھی نہ دیں پانی تک نہیں۔ بچہ کو جتنی مرتبہ ضرورت ہو اتنی مرتبہ دودھ پلائیں دن میں اور رات میں بھی۔اسی طرح ولادت کے 48گھنٹہ تک بچہ کو نہ نہلایا جائے نال کو گیلا نہ ہونے دیں ، بچہ کو بیمار لوگوں سے دور رکھیں ، پیدائش کے وقت بچہ کا وزن لیں اگر وزن 2.5کلو سے کم ہے تو اس کی خصوصی دیکھ بھال کی جائے۔بچہ بہت نازک ہوتے ہیں معمولی لگنے والی باتیں بھی ان کے لئے خطرہ کی علامت ہوتی ہیں مثال کے طور پر ٹھیک سے دودھ نہ پینا ، دودھ پینے میں دقت ہونا ، بچہ کا ولادت کے بعد نہ رونا ، سانس لینے میں پریشانی ہونا ، ہتھیلی و تلوؤں کا پیلا ہونا۔ بخار یا چھونے پر بدن کا ٹھنڈا لگنا ، ٹٹی میں خون آنا ، دورے پڑنا ، بچہ کا سست ہونا ، یا بیہوش ہونا وغیرہ۔ بچہ میں ایسی کوئی بھی علامت نظر آئے تو فورا ڈاکٹر سے رابط قائم کرنا چاہئے۔
بچوں کو ان کی پیدائش کے بعد سے پانچ برس تک ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ہر ٹیکہ کی مدت مقرر ہے ۔ ٹیکے لگوانے کے وقت ٹیکوں کا کارڈ حاصل کرنا نہ بھولیں کیونکہ اس پر ٹیکوں کے اندراج کے ساتھ ہی بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق معلومات بھی موجود رہتی ہے۔

بچہ بہت حساس ہوتے ہیں ان میں ہر روز نئی تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے ان کی ہر ادا ماں باپ کی خوشی میں اضافہ کرتی ہے آپ کی خوشی میں اور اضافہ ہو سکتا ہے اگر آپ بچے میں ہورہی تبدیلیوں میں اس کا ساتھ دیں۔ اس سے ایک طرف بچہ کی نشو نما پر مثبت اثر ہوتا ہے اور دوسری طرح وہ صحت مند رہتا ہے۔ بچہ کو گود میں لیں اسے دیکھ کر مسکرائیں ، بچہ کی آنکھوں میں دیکھیں اس سے باتیں کریں۔ بچے کو دیکھنے سننے محسوس کرنے اور چلنے کے مواقع دیں۔تین ماہ سے زیادہ عمر کے بچے اکثر جواب میں مسکراتے ہیں۔آوازیں نکالنا شروع کرتے ہیں آپ انہیں رنگ برنگی چیزیں دیں جنہیں وہ دیکھیں اور پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھائیں۔ چھ ماہ کی عمر میں بچہ آواز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کرنا بھلا لگتا ہے۔
چھ ماہ کے بعد بچہ کو تھوڑی تھوڑی مقدار میں ملائم ، مسلا ہوا اناج ، دالیں ، سبزی اور پھل کھلانا شروع کریں۔ دھیرے دھیرے کھانے کی مقدار اس کا گاڑھا پن بار بار بڑھائیں۔بچہ کے بھوکے ہونے کی علامت کو سمجھیں اس کے مطابق اسے کھانے کو دیں۔5-4بار کھلانا چاہئے ساتھ ہی ماں کا دودھ پلانا جاری رکھیں۔اپنے بچے کو ہاتھ میں پکڑنے کے لئے صاف اور آواز کرنے والی کرنے والی چیزیں دیں۔ اسے چیزوں کے اور لوگوں کے نام بتائیں۔ نو ماہ کی عمر میں بچہ لٹانے پر اٹھ کر بیٹھ سکتے ہیں۔ انگوٹھے اور انگلیوں سے چیزیں اٹھا سکتے ہیں بنا سہارے کے بیٹھ سکتے ہیں۔ ایک برس کی عمر میں کھڑے ہونا سیکھ جاتے ہیں ہاتھ ہلا سکتے ہیں ، پاپا ، ماما ، دادا ، بابا وغیرہ کہہ سکتے ہیں دو سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بچے اپنی مرضی بتانے لگتے ہیں وہ اچھی طرح چل سکتے ہیں گھر کے کاموں کی نقل کر سکتے ہیں ، پیالے میں پتھر ڈال سکتے ہیں اس وقت ان کو کھانے میں روٹی ، چاول ہرے پتے کی سبزیاں ، پیلے پھل دال ، دودھ یا دودھ سے بنی چیزیں دینی چاہئے۔ دن میں پانچ مرتبہ تھوڑا تھوڑا کھلائیں۔ بچہ کی کھانے ختم کرنے میں مدد کریں۔ دو سال تک ماں کا دودھ پلانا جاری رکھیں۔ تیسرا چوتھا سال بچہ کی تربیت کے لحاظ سے اہم ہوتا ہے اس وقت وہ بولنا سیکھ لیتا ہے جسم کے حصوں کے نام بتانے و رنگوں کی پہچان کرنے میں اس کی مدد کرنی چاہئے اس وقت وہ خود سے کھانا کھا سکتے ہیں انہیں ہاتھ دھونے کی عادت ڈالنی چاہئے اس عمر میں بچے ستدھی لائن کھینچ سکتے ہیں چیزوں کے نام اور رشتہ دارو ں یا قریب رہنے والوں کی پہچان بتانے لگتے ہیں۔ جیسے ، بھیا، آپی ، چاچا ، ماموں وغیرہ کئی بچے نام بھی یاد کر لیتے ہیں اس وقت انہیں باتیں کرنے کے لئے تیار کرنا چاہئے اس ان کی ذہنی نشو نما بہتر ہوتی ہے۔
بچوں کو ان کی پیدائش کے بعد سے پانچ برس تک ٹیکے لگائے جاتے ہیں ، اس لئے ان ٹیکوں کی تواریخ کا دھیان رکھیں ۔ اور مطلوبہ مہینہ اور دن میں وہ ٹیکہ لگوالیں۔
ہندوستان میں ایک اندازے کے مطابق ہر روز تقریبا چار ہزار بچے ایسے امراض سے مر جاتے ہیں جن کا ٹیکوں کے ذریعہ علاج ہو سکتا ہے۔ٹیکوں کی اسی اہمیت کے پیش نظر ، کونسا ٹیکہ کب لگایا جاتا ہے اس کا ذکر کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ولادت کے وقت BCG ، پولیو صفر، ہیپٹائٹس بی صفر ٹیکہ دیا جاتا ہے۔ڈیڑھ ماہ پر پولیو ، ڈی پی ٹی ، ہیپٹائٹس کی خوراک دی جاتی ہے۔ ڈھائی ماہ پر پولیو ،ڈی پی ٹی ہیپٹائٹس بی کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے پھر ساڑھے تین ماہ پر پولیو ، ڈی پی ٹی اور ہیپٹائٹس بی کی خوراک دی جاتی ہے۔ نو ماہ پر خسرہ کا ٹیکہ اور وٹامن اے کی خوراک پلائی جاتی ہے۔ 16 ماہ پر ڈی پی ٹی اور پولیو کی بوسٹر خوراک دی جاتی ہے۔ خسرہ کا ٹیکہ دہرایا جاتا ہے اور وٹامن اے کی خوراک پلائی جاتی ہے ۔ 60ماہ پر ڈی پی ٹی کا بوسٹر ٹیکہ بھی لگایا جاتا ہے۔ یہ تمام ٹیکے آنگن واڈی اور پرائمری ہیلتھ سینٹر میں سرکار کی جانب سے مفت مہیا کرائے جاتے ہیں ۔
یہاں یہ سب باتیں اس لئے نقل کی گئی ہیں تاکہ آپ کے عمل میں رہے کہ کب بچے کو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور کس طرح بچے اور اس کی ماں کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے جس طرح بچہ کو کم غذا دینے سے اس کی جسمانی نشودنما پر برا اثر پڑتا ہے اسی طرح ضرورت سے زیادہ یا عمر کا لحاظ کئے بغیر کھانے سے بھی بچہ کی صحت خراب ہوتی ہے۔ یونیسف سرکار کے ہیلتھ پروگرام میں تکنیکی پاٹنر ہے اس کی مدد سے حفظان صحت کی مہم دور دراز علاقوں تک پہنچ سکی ہے ماں اور بچوں کی صحت کو بہتر بنائے رکھنے کیلئے صحیح معلومات کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے صحت مند رہیں ہے تبھی صحت مند سماج کی تعمیر ہوگی۔
٭٭٭