ماںکے دودھ کی اہمیت ،دودھ بنک کا قیام ۔شرعی نقطۂ نظر

ارشاد باری تعالی ہے ’’مائیں اپنی اولاد کو کامل دوسال دودھ پلائیں،جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو‘‘(البقرۃ:۲۳۳)لغت میں ماں کا اپنے بچے کو دودھ پلانا’’ رضاعت ‘‘کہلاتاہے۔ارضعت الام :کان لہا ولد ترضعہ (المعجم الوسیط)اصطلاح فقہ میں نوزائیدہ بچہ کا پیدائش کے بعددوسال کی مدت تک ماں کی چھاتیوں سے دودھ چوسنے کو رضاعت کہتے ہیں۔مائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مکمل دوسال تک دودھ پلائیں(رد المحتار:۳؍۲۰۹کتاب الرضاع)فطری طورپر قدرت نے بچوں کا یہ حق رکھا ہے، البتہ اس مدت کی تکمیل میں کوئی قوی عذر درپیش ہو تو دوسال سے قبل بھی دودھ چھڑایا جاسکتاہے، دودھ پلانا دیانۃ ماں پر واجب ہے، بغیرکسی شدید عذرکے اپنی بے جا ضد،ہٹ دھرمی ،انانیت یا غیر ضروری ناراضگی کودودھ نہ پلانے کی وجہ بنانا شرعا درست نہیں۔شوہر کے نکاح میں ہوتوبلا کسی اجرت ومعاوضہ کے یہ فریضہ اس کو بخوشی پورا کرنا چاہیئے،اس آیت پاک سے یہ بھی ثابت ہے کہ دوسال کی مدت کے بعددودھ نہ پلایا جائے ،بعض آیات وآثارکی روشنی میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے رضاعت کی مدت ڈھائی سال مانی ہے۔اگرکوئی ماں ڈھائی سال تک دودھ پلائے تو اس کی گنجائش ہے،بچے کی صحت کے نقطۂ نظرسے ڈھائی سال دودھ پلایاجائے تو اس سے گناہ نہیں ہوگا(الہندیہ:۲؍۳۵۰)البتہ ڈھائی سال کی مدت کے بعدبھی دودھ پلایا جائے تو اسکی حرمت پرسب کا اتفاق ہے،احکام رضاعت دوسال کی مدت میں دودھ پلانے کی وجہ بالاتفاق ثابت ہوں گے،ڈھائی سال تک دودھ پلایا جائے تب بھی اختلاف اقوال کی بنااحتیاطا احکام رضاعت کا ثبوت مانا جائے گا۔یعنی اگرکوئی اجنبی لڑکا یا لڑکی ایام رضاعت میں کسی خاتون کا دودھ پیئے تو دودھ پینے والے لڑکے یا لڑکی اوردودھ پلانے والی خاتون کی اولاد کے درمیان رشتہ رضاعت ثابت ہو جائے گا،وہ آپس میں رضاعی بھائی بہن ہوجائیں گے،جس طرح نسبی بھائی بہن کے درمیان رشتہ نکاح حرام ہے اسی طرح رضاعی بھائی بہن کے درمیان نکاح کی حرمت ثابت ہوجائے گی۔یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب(صحیح البخاری:۴۹۴۱)متذکرہ بالا آیت پاک سے ماں کے دودھ کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے،ولادت کے بعدبچے کے مناسب حال غذا کا انتظام قدرت نے ماں کے دودھ سے کیاہے،بچے کی زندگی کی حفاظت اوراسکی عمدہ پرورش وپر داخت میں ماں کے دودھ کا جو رول ہے وہ چودہ صدیاں گزرجانے کے بعدمحققین کی سمجھ میں آسکاہے جبکہ خالق کائنات نے بچے کی پیدائش کے بعدماں کے سینے میں دودھ اتارکرابتداء آفرینش سے اس کی اہمیت جتائی ہے اوراسکی غذائی اہمیت کا تذکرہ قرآن پاک میں آج سے چودہ سوسال قبل فرمادیاہے۔ موجودہ سائنس تسلیم کرچکی ہے کہ نوزائیدہ بچوں کیلئے اگرکوئی عمدہ ،بہترین اورمکمل غذا ہوسکتی ہے تو وہ ماں کا دودھ ہے،اللہ سبحانہ نے وہ تمام غذائی اجزاء مناسب مقداراورتناسب کے ساتھ ماں کے دودھ میں رکھ دئیے ہیں جو بچے کی صحت اور اس کی جسمانی اوردماغی نشوونما میں مددگارہوتے ہیں۔نوزائیدہ بچوں کیلئے ماں کے دودھ کا ہر قطرہ آب حیات سے کم نہیں ،اسکی ہر ہر بوندمیں طاقت ،رحمت ومحبت کا خزانہ پوشیدہ ہے،نومولود کے حق میں ماں کا دودھ نہ صرف یہ کہ اس کی اعلی جسمانی غذاہے بلکہ روحانی واخلاقی غذاکے عناصربھی اس میں شامل ہیں۔ماں کا دودھ نومولودکے قلب وروح میںماں کی ایمانی واخلاقی کیفیات اوراس کی پاکیزہ عادات واطوارکی حسیات بھی منتقل کرتاہے، ماں کے پاکیزہ رجحانات واعلی جذبات اوراسکی نیک تمنائیں وآرزوئیں بھی نومولودکے جسم وجان کا حصہ بن جاتی ہیں۔انسان کے بچے اورحیوانات کے بچوں کے بالمقابل بڑے کمزورہوتے ہیں ،

قدرت نے جہاں ماں کے دل میں ان کی دیکھ بھال میں مستعدرہنے اوران کی حفاظت کے ضروری احساسات کی کیفیات ودیعت کردی ہے وہیں اپنی اولاد کو دودھ پلانے کی رغبت بھی ماں کے قلب میں ڈال دی ہے،اس لئے ماں پوری دلی رغبت اورچاؤکے ساتھ دودھ پلانے میں فرحت محسوس کرتی ہے۔ماں کا یہ دودھ کمزور انسانی ،نوزائیدہ بچوں میں قوت مدافعت پیداکرتاہے،اسکی وجہ وہ الرجی،معدہ اورتنفس کے امراض میں مبتلا ہونے سے بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں،جدید تحقیقات سے یہ بھی ثابت ہے کہ موجودہ دورکے نئے امراض جیسے شوگر،بلڈپریشر،دمہ،موٹا پاوغیرہ لاحق ہونے کے امکانات بڑی حد تک کم ہوجاتے ہیں۔ماہرین صحت نے ماں کے دودھ کے فوائدکی وجہ عالمی سطح پرمائوں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا پرزورمشورہ دیاہے،اورجو خواتین اپنا دودھ پلانے سے گریزکرتی ہیں ان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ بڑے اخلاقی جرم کی مرتکب ہورہی ہیں،دودھ نہ پلاکرنہ صرف یہ کہ وہ نومولودپر ظلم ڈھارہی ہیں بلکہ اپنے آپ پر بھی ظلم کررہی ہیں،دودھ پلانا جہاں نوزائیدہ بچوں کی صحت وتندرستی کے مفید نتائج فراہم کرتاہے وہیں ماں کی صحت پر بھی اسکے خوشگواراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دوسالہ رضاعت کی مدت میں مزیدابتدائی چھ ماہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں،ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ ابتدائی چھ ماہ میں بچوں کو صرف ماں کے دودھ پر رکھا جائے کوئی اورسیال یا ٹھوس غذاہر گز نہ دی جائے،یہاں تک کہ پانی پلانے سے بھی اجتناب کیا جائے چونکہ ماں کے دودھ میں اسی(۸۰)فیصد سے زائدپانی موجود ہوتاہے جو اس کو پانی کی ضرورت وچاہت سے بے نیاز رکھتاہے۔ بچے کی ولادت کے ابتدائی تین سے پانچ دن تک ماں کی چھاتیوں سے جو دودھ اترتاہے اس کو طب کی اصطلاح میں ’’فلا سزم‘‘کہتے ہیں،اس کا رنگ پیلا ہوتاہے اوران دنوں کے بعد آنے والے دودھ کے بالمقابل گاڑھا ہوتاہے ،محققین نے اس دودھ پر ریسرچ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ دودھ انتہائی نفع بخش و بیش قیمت اجزاء پر مشتمل ہوتاہے جو نوزائیدہ بچوں میں طاقت و قوت اورتوانائی فراہم کرنے کے ساتھ مدافعت کی قوت میں اضافہ کرتاہے۔اس دودھ سے آنتوں کی کمزوری دفع ہوتی ہے اور اس دودھ میں قبض کشا اجزاء کی وجہ نظام ہضم درست رہتاہے،بچوں کو اگردست آرہے ہوں توماں کواپنا دودھ پلانا جاری رکھنا چاہیئے اس سے پانی کی کمی کا جوخطرہ لاحق ہوتاہے ماں کا دودھ اسکا بھر پورازالہ کرتاہے،اس سے بچے کے جسم میں پانی اوراسکے وزن میں کمی آنے نہیں پاتی،ولادت کے فوری بعد ماں کی چھاتیوں سے نکلنے والا پہلا دودھ جسے طب کی اصطلاح میں ’’کولسٹروم‘‘ کہتے ہیں جو بہت کم مقدارمیں آتاہے لیکن نوزائیدہ بچے کیلئے یہ دودھ کسی بھی قیمتی دھات سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتاہے۔ وٹامن اے کی اس میں زیادہ مقدارہوتی ہے جس کی وجہ مختلف النوع امراض کے حملوں سے حفاظت ہوتی ہے،

ولادت کے ایک گھنٹے کے اندراندرماں کواپنا دودھ پلانا شروع کرد ینا چاہیئے ، اکثرمائیں اپنا دودھ پلاتے ہوئے ڈبے کا دودھ یا پھرجانوروں کا دودھ پلانا شروع کردیتی ہیں ،مائوں کو اس سے گریز کرنے کی رائے دیتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کو ماں اپنا دودھ جتنا زیادہ پلانے کی کوشش کریگی اتنا ہی زیادہ قدرت کی طرف سے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اترنا شروع ہوجاتاہے۔ماں کے دودھ کے ساتھ بچوں کو دوسرے دودھ پر لگانے کی وجہ ماں کا دودھ کم ہونے لگتاہے نیزبچے کے دودھ پینے کا عمل زیادہ دودھ کی آمدکا سبب بنتاہے،دوسرے دودھ کے اہتمام کی وجہ ماں کے دودھ میں کمی کے خطرات درپیش ہوجاتے ہیں،قدرت نے ماں کے دودھ میں لحمیات ،چکنائی اورنشاستہ کی مقداراوراسکی عمدگی وافادیت کسی اوردودھ کے مقابل میں زیادہ رکھی ہے۔ایک اورقیمتی اوربیش بہا نعمت اللہ نے ماں کے دودھ میں رکھی ہے اوروہ Lactose لیکٹوز ہے جوکسی بھی دودھ سے زیادہ ماں کے دودھ میں موجودہے،ایام رضاعت میں ماں کے دودھ کے بجائے جانوروں کے دودھ پر رکھنے سے بچوں کے اعضاء رئیسہ متاثرہونے کا خطرہ بڑھ جاتاہے،الغرض ماں کے دودھ کا کوئی اوراچھا متبادل تحقیقاً ثابت نہیں۔موجودہ ترقی یافتہ دورمیں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی معاشی تگ ودوکی دوڑمیں لگی ہوئی ہیں جس کی وجہ وہ اپنے بچوں کو کما حقہ اپنا دودھ پلانے سے قاصررہتی ہیں،اوربعض یہ سمجھتی ہیں کہ بچوں کو دودھ پلانے کا عمل حسن وجمال میں کمی کا سبب بن سکتاہے اس لئے بھی وہ اس سے گریز کرتی ہیں اس پس منظر میں بہت سے ترقی یافتہ ممالک مائوں کو دودھ پلانے کی ترغیب دلانے کے لئے ’’ماں کے دودھ کا عالمی ہفتہ‘‘ منارہے ہیں۔اوراس کے لئے انہوں نے یکم اگست تا ۷ اگست کی تواریخ منتخب کی ہیں۔زمانہ کی تیزتر ترقی اور آزادی نسوان کے غیر فطری جنون نے مائوں کو گھریلوذمہ داریوں کے ساتھ بیرون خانہ مردوں کے شانہ بشانہ تحصیل معاش کے جھمیلوں میں الجھادیاہے،اوربعض تہذیب نوکے پروردہ خواتین اپنا دودھ پلانے کو فرسودہ وقدامت پرستی خیال کرتی ہیں،جس کی وجہ مائیں اپنے بچوں کو حسب نظام فطرت دودھ نہیں پلاپارہی ہیں۔قدیم زمانہ میں ایسی مائیں جو دودھ کی قلت کا شکاررہتی تھیں، ان کے بچوں کو دودھ پلانے کیلئے دایہ مقررکی جاتی تھی جو ان کو دودھ پلایا کرتی تھی،لیکن اب سائنسی ترقیات نے مائوں کے دودھ بنک قائم کرنے کی راہ دکھائی ہے،چنانچہ مغربی ممالک میں عرصہ قبل مائوں کے دودھ بنک قائم ہوچکے ہیں ۔مغربی ممالک میں رائج شدہ ہر شیٔ کچھ دن بعد مشرقی ممالک کا رخ کرتی ہے ،چنانچہ دہلی میں رضاکارتنظیم ’’بریسٹ ملک فاؤنڈیشن(بی ۔ایم ۔ایف )‘‘اور’’فورٹیس لاکیم ‘‘اسپتال کے آپسی تعاون واشتراک سے ماں کے دودھ کا پہلا بنک قائم ہوا۔اس طرح کے بنک قائم کرنے کے رجحانات پورے ملک میں پرورش پارہے ہیں،چنانچہ حیدرآباد دکن کے ’’نیلوفر‘‘دواخانہ میں ماں کے دودھ کے بنک کا افتتاح عمل میں لا یا گیاہے، اس افتتاحی تقریب میں مرکزی وزیرانوپریہ پٹیل نے خطاب کرتے ہوئے اپنے طرز کے اس منفرد ماں کے دودھ کے بنک کے قیام کے ذریعہ معصوم بچوں کو فائدہ پہنچانے کے جو اقدامات کئے گئے ہیں اس کو قابل ستائش قراردیا ہے۔اورکہا ہے کہ’’نوزائیدہ بچوں کی جملہ اموات میں تیس فیصداموات کی بنیادی وجہ ماں کا دددھ نہ ملنا ہے‘‘مائوں کے دودھ بنک کا قیام جومکمل انسانی فلا ح وبہبوداورمعصوم بچوں کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر کیا جارہاہے گویا یہ رضاعت کی ایک جدید شکل ہے۔نومولود جس خاتون کا دودھ پیے گا شرعا وہ اس کی رضاعی ماں اوراس خاتون کا شوہر دودھ پینے والے بچے کا رضاعی باپ اوراسکی اولادمیں بیٹے اسکے رضاعی بھائی اوربیٹیاں اسکی رضاعی بہنیں بن جاتی ہیں، نیزدیگراوررشتے جیسے دودھ پلانے والی کے بھائیاں اسکے رضاعی ماموں اوربہنیں رضاعی خالا ئیں ہوجا ئیں گی ،اوردودھ پلانے والی کے شوہرکے بھائیوں سے چچاؤں کا اوربہنوں سے پھوپیوں کا رشتہ علی ہذارضاعی اعتبارسے ان کی اولاد سے رضاعی بھانجے اوربھانجیوں اوررضاعی بھتیجے اوربھتجیوں کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔ نیزرضیع یعنی دودھ پینے والے کی بیوی دودھ پلانے والی خاتون کے شوہر پر حرام ہوگی اوراس خاتون کے شوہر کی بیوی رضیع پر حرام ہوگی۔جد وجدہ یعنی دادا ،دادی ،نانا،نانی تک حرمت رضاعت کے احکام ثابت ہوں گے(تاتارخانیہ:۳؍کتاب الرضاع)اس تناظر میں دامن ایمان سے وابستہ افراد امت کیلئے رضاعت کی وجہ نکاح کی حرمت کا اہم ترین مسئلہ دعوت غوروفکرکا اہم موضوع بن گیا ہے۔اسلامی نقطئہ نظرسے بنکوں کے قیام کے ذریعہ دودھ کی خریدوفروخت شرعا جائز نہیں ہوگی اوراس مقصد یعنی تجارت کی غرض سے دودھ بنک کا قیام بھی شرعا جائز نہیں ہوگا۔وہ مائیں جو اپنا دودھ بنکوں میں جمع کروانا چاہتی ہیں ان کے لئے سخت پردہ کا اہتمام ہونا چاہیئے جہاں مردملازمین کی ہر گزمداخلت نہ ہو، اوروہ خواتین انسانی بنیادوں پر خالص جذبہ ہمدردی سے اپنا دودھ جمع کروائیں ، دودھ بنک کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ ہر خاتون کا دودھ علیحدہ علیحدہ محفوظ کریں ،دودھ جمع کروانے والی ہرخاتون کا اور نومولودکیلئے دودھ حاصل کرنے والے والدین کا نام وپتہ بنک میں محفوظ رہے، اپنا دودھ جمع کروانے والی خاتون اور اس نومولود کے والدین ہر دو کو اس سے مطلع کردیا جائے تاکہ آئندہ نکاحی رشتوں کے قیام کے سلسلہ میں شرعی احکامات کی پاسداری اورامرحرام میں مبتلا ہونے سے بچنے کا یقینی اہتمام ہوسکے۔ کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ رضاعی رشتوں کی نزاکت وحساسیت کے پیش نظر ایک نومولود کوایک ہی خاتون کا دودھ مہیا کیا جائے ،اگرکئی خواتین کا دودھ جمع کرکے خلط ملط کردیا جائے اوروہ دودھ کسی نومولودکیلئے مہیا کیا جائے تو ظاہر ہے کئی ایک خواتین سے رشتہ رضاعت ثابت ہوجائے گا ،ان تمام کی تفصیلات بنک میں مندرج ہوں تب بھی ان تمام خواتین سے رشتہ رضاعت قائم ہوجانے کی وجہ رشتہ رضاعت سے ثابت ہونے والی حرمت کا پاس ولحاظ سخت مشکل ہوجائے گا،اس لئے رشتوں کے تقدس کو برقراررکھنے کیلئے ایسے سخت اہتمامات شرعا لازم و ضروری ہیں ورنہ مسلمانوں کوایسے بنکوں سے استفادہ کر نا شرعا جائز نہیں ہوگا۔