لیبر طبقہ اور مرکزی حکومت

مرکزی حکومت غریب خانگی ملازمین ، ورکرس کے مفادات میں فیصلہ کرنے کا دعویٰ رکھتی ہے مگر ’’پراویڈنٹ فنڈ‘‘ جیسے ورکرس کے اہم مسئلہ پر اس کے من مانی فیصلے ورکرس کی زندگی بھر کی جمع پونجی کیساتھ تکلیف دہ حد تک کھلواڑ ثابت ہوں تو یہ ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ پی ایف کی رقم میں سے آجر کے حصہ کو نکالنے پر پابندی لگانے اور 58 سال کی عمر کو پہونچنے کے بعد ہی ملازمین کو رقم نکالنے کا اختیار دیئے جانے کے خلاف ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا جبکہ رقم نکالنے کی عمر کی موجودہ حد 54 سال ہے۔ مرکز نے ملازمین کے شدید احتجاج کے بعد اپنے فیصلہ کو روک دیا ہے۔ تین ماہ تک اس فیصلے کو ملتوی کرتے ہوئے حالات کو فی الحال دبانے کی کوشش کی ہے مگر یہ مسئلہ یکسر ختم کردینے کا متقاضی ہے۔ پی ایف کی رقم نکالنے پر پابندی کا جو فیصلہ کیا گیا اور اس کے بعد ورکرس، ملازمین کے شدید احتجاج کے بعد اس فیصلہ کو 31 جولائی 2016ء تک تین ماہ کے لئے معطلی کی حالت میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ملازمین کا مطالبہ پورا نہیں ہوا۔ حکومت نے بعدازاں فی الفور اپنے فیصلہ سے دستبردار ہوجانے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر میں لاکھوں خانگی ملازمین کی زندگی بھر کی کمائی سے کچھ حصہ نکال کر سرکار کے ادارہ میں جمع کیا جاتا ہے تو حکومت اس جمع شدہ رقم پر شرح سود کو بڑھانے کے بجائے اس پر نت نئے فیصلے کررہی ہے تو یہ لیبر طبقہ کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ وزارتِ لیبر کو فراخدلانہ اقدامات کرنے کے بجائے مخالف لیبر پالیسی اپنانے کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔ مرکز کی نریندر مودی اگر اسی طرح مخالف عوام اور غریب لیبر طبقہ کو ناراض کرکے حکومت پر برقرار رہنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو اسے بہت جلد اپنے خواب کو بکھر جانے کا احساس ہوجائے گا۔ فروری میں وزارت لیبر نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے ورکرس یا لیبر طبقہ کے کسی بھی رکن کے بیروزگار ہوجانے کے دو ماہ بعد پراویڈنٹ فنڈ، فی رقم 100 فیصد نکالنے پر پابندی عائد کی تھی۔ وزارت لیبر نے ایمپلائیز پراویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن سے رقم نکالنے کے لئے بعض راحتیں بھی دی تھیں۔ اگر کوئی لیبر یا ملازم مکان کے لئے اراضی خریدنا چاہتا ہے، کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے، شادی کا مسئلہ ہو یا بچوں کی پیشہ ورانہ تعلیم کیلئے رقم نکالنے کا مسئلہ ہو تو ان امور کی بنیاد پر رقم حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے پی ایف میں سے ملازم اپنی بیروزگاری یا ملازمت برخاست ہونے کے دو ماہ بعد یہ رقم نکال سکتا تھا مگر نئے قوانین کے بعد کوئی بھی ملازم اپنی عمر 58 سال تک پہونچنے تک رقم حاصل کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ یہ فیصلہ سراسر ملازمین کے اختیار اور اس کے حق کو مسدود کرنے کے مترادف ہے۔ ٹریڈ یونینوں نے پی ایف امور کو سخت کردینے کے فیصلہ کو مکمل طور پر واپس لینے پر زور دیا۔ آخر مودی حکومت اس طرح کے نقصان دہ فیصلہ کرکے پی ایف اسکیم 1952ء میں ترمیمات کرکے ملازمین کے غم و غصہ کو کیوں چھیڑنا چاہتی ہے۔ حکومت نے ای پی ایف او کے ساتھ چھیڑچھاڑ کرکے ٹھیک نہیں کیا ہے۔ سابق میں جو قوانین بنائے گئے تھے، ان کو مزید سخت سہل بنانے اور لیبر طبقہ کی بہبود کے لئے اقدامات کرنے کے بجائے سخت پالیسیاں بنائے جارہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ لیبر طبقہ کی حفاظت کرنے والے ادارے حکومت کے اشاروں پر چلنے لگیں تو حکومت کو زیادہ مدت تک اقتدار کے مزے لینے کا خواب ترک کردینا پڑے گا۔ یہ دکھانے کے لئے ہم کتنے ہمدرد ہیں، حکومت نے لیبر کے حق میں پالیسیاں بنانے کے دعویٰ کرتی ہے، حقوق لیبران قانون کو موثر بنانے سے گریز کرکے حکومت نے لیبر کے اختیارات کو سلب کررہی ہے۔ گارمنٹ فیاکٹری کرناٹک میں کام کرنے والے وکرس نے جن میں خواتین کی تعداد زیادہ تھی، سڑک پر نکل کر حکومت کے مخالف لیبر فیصلہ کے خلاف احتجاج شروع کیا تو لیبر طبقہ کی برہمی و ناراضگی سامنے آئی۔ 10 ہزار گارمنٹ ورکرس نے بنگلور کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کرکے مرکز کی مخالف لیبر اور پی ایف پالیسی کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ ان خواتین کا کوئی لیڈر نہیں تھا۔ خواتین نے خود میں ایک لیڈر پیدا کرکے حکومت پر اپنا فیصلہ واپس لینے کے لئے زور دیا۔ اب مرکز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس احتجاج کی صورت میں اُٹھنے والی مخالف حکومت لہر کا اندازہ کرکے اپنے فیصلہ سے مکمل دستبرداری اختیار کرے اور لیبر طبقہ کے حق میں موثر پالیسیاں وضع کرے، ورنہ حکومت اپنی پالیسی کی وجہ سے ’’جگ ہنسائی‘‘ کا باعث بن جائے گی۔ بہرحال حکومت نے لیبر طبقہ کے احتجاج کو اور اس کی سنگینی کو بھانپ کر اپنے فیصلہ کو واپس لیا ہے تو اس کی یہ بروقت بیداری ایک اچھی پہل ثابت ہوئی۔