لوک پال کا آزادانہ رول ضروری

ملک سے رشوت کے خاتمہ کے لیے سرکاری ، سماجی اور عوامی سطح پر کی جانے والی کوششوں کے درمیان مرکزی حکومت نے لوک پال کے تقرر کا فیصلہ کیا ہے ۔ سماجی جہدکار اناہزارے نے رشوت ستانی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی تھی ۔ ان کی بھوک ہڑتال کو ختم کروانے کے لیے سرکاری سطح پر یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ لوک پال کا تقرر عمل میں لایا جائے گا لیکن 2014 میں جب نریندر مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا گذشتہ پانچ سال تک اس وعدے کو مختلف زاویوں میں گشت کروایا گیا اب بالآخر 2019 کے عام انتخابات سے قبل لوک پال کے تقرر کا اعلان کیا گیا ۔ سپریم کورٹ کے سابق جج پی سی گھوش کو ہندوستان کے پہلے لوک پال بنایا جارہا ہے۔ یہ قابل خیر مقدم قدم ہے ۔ لوک پال کے تقرر کے لیے قانونی اور سیاسی کوششوں کے بعد برسوں پرانے تنازعہ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مگر یہ کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکے گا کہ لوک پال بھی کسی سیاسی دباؤ سے آزاد ہوں گے ۔ نریندر مودی حکومت میں ایک آزادانہ لوک پال کا تصور کیا جانا محال ہے ۔ لوک پال حکومت کا آزاد ادارہ ہوگا یا دیگر سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر چلے گا یہ ناقابل قیاس ہے ۔ مرکز میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی معاملہ درج ہوتا ہے تو اس ادارہ کو اپنے اختیارات آزادانہ طور پر استعمال کی اجازت نہیں دی جاتی کوئی بھی ادارہ اس وقت آزادانہ طور پر کام نہیں کررہا ہے ۔ ملک کے قدیم دستوری اداروں سے لے کر عام سرکاری دفتر میں سیاسی دباو اور بالا دستی رکھنے والے سیاستدانوں کی ہی بات کا اثر دکھائی دیتا ہے ۔ ملک کے حالیہ واقعات کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ جس میں سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن سی بی آئی سے لے کر دیگر کئی اداروں پر حکومت کا تسلط ہے یا حکمراں طبقہ کے خاص سیاستدانوں کے اشاروں پر یہ کام کرنے کے لیے مجبور ہیں ۔ اس لیے ان دنوں سرکاری اہم دفاتر کو ’ پنجرے کا طوطا ‘ قرار دیا جارہا ہے ۔ اب لوک پال کا تقرر بھی صرف ’ پنجرے کا طوطا ‘ ہوجائے تو اس لوک پال کے لیے اب تک کی ہونے والی کوششیں رائیگاں ہوجائیں گی ۔ سال 2013 میں سب سے پہلے لوک پال قانون میں یہ سہولت پیدا کی گئی کہ ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جائے جس کی قیادت وزیراعظم کریں ۔ لوک سبھا اسپیکر اور اپوزیشن لیڈر چیف جسٹس آف انڈیا اور ایک نامور جیوری کو بھی اس میں شامل کیا جائے ۔ اس گروپ کو غیر جانبدارانہ انصاف پسند ہونا ضروری ہے ۔ لوک پال کے تقرر کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنایا جانا مقصد تھا کہ اس میں کسی بھی خاص گروپ کا اثر نہ ہو اور وہ مکمل آزادی کے ساتھ کام کرے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ لوک پال کا انتخاب بھی سیاسی دباؤ کا اثر معلوم ہوتا ہے کیوں کہ جس لوک پال کے لیے سلیکشن کمیٹی کا مسئلہ تھا اس میں اپوزیشن کانگریس نے اپنے لیڈر ملکارجن کھرگے کو ذمہ داری دینے پر زور دیا تھا لیکن انہیں صرف خصوصی مدعوئین کی حیثیت سے شامل کیا گیا جن کا کوئی موقف نہیں ہوتا اور وہ فیصلہ سازی کا بھی اختیار نہیں رکھتے ۔ ملکارجن کھرگے نے اس کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا ۔ ماضی میں نریندر مودی جس وقت چیف منسٹر گجرات تھے انہوں نے لوک ایوکت کے تقرر میں رکاوٹ پیدا کردی تھی ۔ اس وقت ان کے لیے لوک پال ایک سیاسی چھڑی تھی جس کے ذریعہ وہ کانگریس کو ڈرانا چاہتے تھے ۔ اب لوک پال کا تقرر بھی اس سیاسی چھڑی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس سے عام عوامی زندگی میں کوئی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ بہر حال ملک کے اہم اداروں کی طرح لوک پال کا موقف اگر مختلف اور منفرد ہو تو اس سے بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔ مگر لوک پال کا بھی دیگر دستوری اداروں کی طرح حشر کردیا گیا تو پر توقع کرنا فضول ہے کہ لوک پال کے تقرر کے بعد کچھ بہتری آئے گی ۔ لوک پال کا تقرر موجودہ حکومت نے آنے والے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر کیا ہے تو پھر یہ بھی ایک ڈرامائی فیصلہ ہے ۔۔