لوک سبھا انتخابات سے قبل

سبھوں کے واسطے سوغات ان کی
ہمارے واسطے صرف ایک وعدہ
لوک سبھا انتخابات سے قبل
لوک سبھا انتخابات سے قبل ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنا کر خوف زدہ کرنے کا عمل تیز کردیا گیا ہے ۔ کشمیر میں پلوامہ حملہ سے لے کر کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کی پسماندگی کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں کی چالاکیوں کا مظاہرہ ہورہا ہے تو ایسے میں مسلمانوں کو غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کو لاحق خطرات اور ان کی پسماندگی ، تعلیمی محرومی ، سماجی ابتری کی دہائی دے کر ان کے ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیوں نے نئے سیاسی جال تیار کرلیے ہیں ۔ کانگریس نے نریندر مودی اور امیت شاہ کا خوف دکھایا ہے تو خود بی جے پی نے مسلمانوں کے تعلق سے اپنی نرم دلی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا ہے ۔ حال ہی میں سعودی عرب کے شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ ہند اور حج کوٹہ میں 25 ہزار کے اضافہ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دارالحکومت دہلی سے لے کر ملک کی تمام ریاستوں میں آنے والے لوک سبھا انتخابات اہمیت کے حامل ہیں ۔ مسلم رائے دہندوں کو رجھانے والی پارٹیوں کے بارے میں جو کچھ باتیں سامنے آتی رہی ہیں ان کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں ہی آج مسلمانوں کو اپنا ووٹ راست طریقہ سے استعمال کرنے میں تامل ہورہا ہے اور ہنگامی صورت میں رائے دہی کے دن مسلمانوں کی اکثریت کے ووٹ منقسم ہوجاتے ہیں ۔ ملک کی آبادی جملہ 1.3 بلین ہے ۔ اس میں 14 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ ہر ریاست میں ان کے ووٹ ہی لوک سبھا کے ہر 3 حلقوں میں سے ایک حلقہ کے لیے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں میں ووٹ دینے کا جذبہ سے لے کر ان کے سیاسی رہنما ووٹ کی اہمیت بتاکر انہیں بیدار ہونے میں مدد کرتے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی 14 فیصد آبادی کے باوجود لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ رہی ہے ۔ ایک گروپ مسلم ووٹوں کی خاطر یہ خوف پھیلاتا ہے کہ فلاں پارٹی کو مسلمانوں کا ووٹ دینے کا مطلب اپنا ووٹ ضائع کرنا ہے تو دوسرا گروپ مسلمانوں کے ووٹ کے حصول کے لیے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر کے مسلم ووٹس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کے ووٹ منقسم ہونے کی وجہ سے آج لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوتے جارہی ہے ۔ مختلف ریاستوں میں مختلف پارٹیوں کے لیے جب مسلم ووٹ منقسم ہوجائیں گے تو ان کی قومی آواز میں کمی آئے گی ۔ عالمی سطح پر 9/11 کے باعث دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پس منظر میں عالمی سطح پر جہاں مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی وہیں ہندوستان میں مسلمانوں کو مشکوک بناتے ہوئے فرقہ پرست پارٹیوں نے اپنا ووٹ بینک مضبوط بنالیا ۔ اجمیر ، مالیگاؤں ، احمد آباد ، حیدرآباد میں بم دھماکوں کے بعد دہشت گردی کے الزام میں کئی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات درج کرتے ہوئے ایک خوف کا ماحول بنایا گیا جو آج تک جاری ہے ۔ اگرچیکہ گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کو عدالتوں میں بے قصور قرار دیا گیا لیکن قومی سطح پر حکومت اور پولیس کا جو رول رہا ہے اس سے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو خوف کے ماحول میں ڈھکیل دیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خوف کا سیاسی فائدہ اٹھانے والوں میں خود اُن کے مسلم نمائندے بھی شامل ہیں اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ اب لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کے درمیان ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں نوشتہ دیوار پڑھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ طلاق ثلاثہ بل ، رام مندر اور اب کشمیر کے مسئلہ کو لے کر مسلمانوں کو ہی خوف کی کھائی میں ڈھکیلا جارہا ہے ۔ ملک کے دارالحکومت دہلی میں ہونے والی سیاست کا اثر سارے ملک پر ہوتا ہے ۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور چیف منسٹر اروند کجریوال مسلم رائے دہندوں تک رسائی حاصل کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں اور عام آدمی پارٹی نے مسلمانوں کو بی جے پی کا خوف دکھانا شروع کیا ہے ۔ اروند کجریوال دہلی کے مسلم علاقوں کا دورہ کر کے عام لوگوں سے ملاقات کررہے ہیں ۔ وہ مسلم رائے دہندوں کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ دہلی میں کانگریس کامیاب نہیں ہوگی اس لیے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیں ۔ وزیراعظم نریندر مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ کو بھی ملک کے لیے بہت خطرناک بتایا جارہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں کے درمیان مسلمانوں کو ہی اپنے ووٹ کے صحیح استعمال کے بارے میں چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ ابھی سے ہی مسلمانوں کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ریاستی سطح پر مسلم بہی خواہوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے ۔۔