لوک سبھا الیکشن 2019۔ سال2004کی شکست سے ‘ بی جے پی نے 2019کے الیکشن کے لئے سبق سیکھا 

پندرہ سال قبل زعفرانی پارٹی کو جس شکست کا سامنا ہوا تھا اوراب وہ اس شکست سے چھ اہم سبق لیاہے

اپوزیشن میں کئی لوگوں کامنا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کے کچھ لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ 2019کا الیکشن ان کے لئے 2004کے الیکشن کے مماثل ہے۔ سال 2004کے عام انتخابات میں اٹل بہاری واجپائی کی مقبولیت تھی ۔

بی جے پی پبلسٹی مشین ٹاپ گیر میں تھی‘ اپوزیشن مایوس دیکھائی دے رہی تھی ‘ تمام انتخابای قیاس آرائیاں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار پر فائز کررہی تھیں‘ او رپھر کانگریس سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن کر ابھری او ریونائٹیڈ پروگراسیو الائنس( یو پی اے) کا جنم ہوا اور دس سال کے لئے بی جے پی اقتدار سے محروم ہوگئی۔

پندرہ سال بعد پھر دوبارہ مودی مقبول ہیں‘ بی جے پی کی مشنری اور تنظیم سرگرم ہے‘ مذکورہ اپوزیشن کو کوئی موقع دیکھائی نہیں دے رہا ہے‘ کیاپھر ہندوستان مخالف لہر کو مسترد کردے گا؟۔

مجوزہ الیکشن یقیناًغیر متوقع ہے۔ مگر بی جے پی خود اپنے 2004کے تجربہ کا احتساب میں لگے ہوئی ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس تجربے سے موجودہ الیکشن کے لئے چھ سبق سیکھنے میں لگی ہوئی ہے

کوئی مطابقت نہیں۔

سال 2003میں راجستھان‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے الیکشن میں کامیابی کی وجہہ سے پارٹی میں اطمینان کا احساس بڑھ گیاتھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اس جیت کی وجہہ سے پرمتوفی پرمود مہاجن نے واجپائی کو قابل ازوقت الیکشن کا مشورہ دیا‘ اس وقت کے وزیراعظم نے یہی فیصلہ لیاتھا‘ مگر سب کچھ اطمینان بخش نہیں تھا۔

مذکورہ پارٹی نے الیکشن سے قبل سونچ لیاتھا کہ وہ واجپائی کی مقبولیت کی بنیاد پر جیت حاصل کرلے گی۔ سونیا گاندھی کو مدمقابل کے طور پر سنجیدگی سے نہیں غور نہیں کیا۔

آر ایس ایس کے ساتھ رابطہ

یہاں پر یہ بات بارہا کہی گئی ہے کہ آر ایس ایس نے 2004کے الیکشن میں سرگرم رول کبھی ادا نہیں کیا۔سنگھ کی لیڈرشپ اور واجپائی کے درمیان اختلافات سے سب واقف تھے۔ اورسنگھ کے کارکنوں نے بی جے پی کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لئے سرگرمی کے ساتھ کام نہیں کیا۔

تاہم بی جے پی کے ایک ٹاپ لیڈر نے اس نظریہ کی وضاحت کی او رکہاکہ’’ یہ سچ نہیں ہے کہ سنگھ نے کام نہیں کیاہے۔ مگر یہاں پر کوارڈنیشن کامسئلہ تھا‘‘۔

مگر اس مرتبہ پچھلے چھ ماہ سے ایچ ٹی میں شائع سمرتی کاک رام چندرن کی رپورٹس کے مطابق حکومت اور ا ن کے درمیان میں بہترین روابط ہیں۔

ہوسکتا ہے کچھ پالیسیوں کی وجہہ سے آپس میں نااتفاقیاں بھی پیدا ہورہی ہیں مگر سنگھ کی قیادت نے صاف کردیا ہے کہ وہ مودی کی واپسی چاہتے ہیں۔

اہم ووٹرس کے درمیان میں فروغ‘سماجی ڈھانچہ کی مضبوطی‘ الائنس‘ اور جنوبی ہند پر حکمت عملی بھی اس کا حصہ رہا ہے جس کے تحت مودی حکومت اس مرتبہ کے 2019الیکشن میں سابق کے تجربے سے چھ سبق سیکھے ہیں او راس پر ہی کام کررہی ہے۔