لنگایتوں کو علیحدہ مذہبی شناخت کے لئے چیف منسٹر سدارامیہ سے سخت انداز میں مطالبہ۔

کرناٹک۔اتوار کے روز لنگایت لیڈرس اور مذہبی سربراہان چیف منسٹر سدارامیہ سے مطالبہ کیا ہے کوہ لنگایتوں کے لئے علیحدہ مذہبی شناخت کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکز پر دباؤ ڈالیں اور بسوانا جوکہ لنگایت طبقے کے بانی ہیں انہیں ریاست کا ثقافتی لیڈر کے خطاب سے نوازے۔ہندوستان ٹائمز میں شائع خبر کے مطابق لنگایت مہاسبھا کے سالانہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے میٹ مہادی جو کہ بسوا دھرما پیتھا کے باثر سربراہ بھی ہیں نے کہا ہے کہ ’’اگلے سال ریاست میں انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور ایک بار انتخابی ضابطے اخلاق نافذ ہوجاتا ہے تو اس کے بعد کسی بھی قسم کا اعلان نہیں کرسکتے لہذا حکومت اس سے قبل ہی یہ کام کردے ۔

میں چیف منسٹر سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے سفارشات ڈسمبر30تک مرکز کو روانہ کردے‘‘۔سدارامیہ کی جانب سے لنگایت طبقے کو رضاکارانہ طور پر فیصلے کے ذریعہ موقف فراہم کرنے کا بھروسے کے بعد اس مطالبہ میں مزید شدت پیدا کردی گئی ہے۔مہادیوی نے مزید طور پر یہ بھی کہاہے کہ ’’ اس سے قبل یہاں تک انگریزوں نے بھی ہمیں ہندوؤں سے منفرد قراردیا تھا ۔ مگر بدقسمتی سے ملک کی آزادی کے ہماری آزادی ختم کردی گئی ‘‘۔

مسٹر کلکرنی ریاستی وزیر جو اس تحریک کا حصہ بھی رہے ہیں نے کہاکہ یہ تحریک کسی مخصوص طبقے کے خلاف نہیں ہے اور او ربتایا کہ’’ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں ہم ہندو مذہب کو توڑ نے کی کوشش کررہے ہیں‘ مگر یہ درست نہیں ہے۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر شخص ہندو ہے۔ مگر اس کے علاوہ ہم لنگایت مذہب کے ماننے والے ہیں‘ جس طرح مسلمانوں کے لئے محمد ﷺ ہیں‘ عیسائیوں کے لئے عیسیٰ مسیح ‘ بدھسٹوں کے لئے بدھا‘ اور سکھوں کے لئے گرو نانک ‘ ویسے ہی ہمارے لئے بسوانا ہیں‘‘۔

ویرا شہاوی لیڈرس کے حوالے سے مسٹر کلکرنی نے کہاکہ ’’ ہم صرف ایک درخواست پیش کرتے ہیں‘ تم جو چاہتے ہو وہ مانگو‘ مگر ہمیں الگ مذہبی شناخت فراہم کردو‘‘۔ درایں اثناء ایم بی پٹیل ایک اور ریاستی وزیر نے کہاکہ میں نے ایک ان لائن درخواست جس کو ویرا شیاوائی لنگایت کو علیحدہ مذہبی شناخت فراہم کی جائے ’’مگر تین مرتبہ ا ن لائن درخواست مسترد کردی گئی ۔ اس کے بعد مجھے اس کی وجوہات کا اندازہ ہوا ویرا شاائی کا استعمال شیاؤیٹا فلسفہ کے طور پر استعمال کرنا ہندو مذہب کا حصہ قراردیا جاتا ہے‘‘۔

پاٹل نے یہ بھی کہاکہ ’’ صرف2014میں جین طبقے کو اقلیتی طبقے میں شامل کیاگیا ہے۔ میں ( بی جے پی صدر) امیت شاہ سے کہنا چاہتا ہوں اگر ہندو مذہب کو توڑ نے کاکام کیاجارہا ہے تو جین او رسکھوں کو وہیں پر اقلیت کیوں کہاجاتا ہے؟کیوں اس طرح کا الزام صرف لنگایت کے مطالبہ پر لگایاجاتا ہے؟‘‘۔ ایس ایم جمدار ریٹائرڈ ائی اے ایس افیسر کے مطابق لنگایتوں کو ہندو مذہب میں شامل کرنے کے پس پردہ ایک سازش رہی ہے۔

حالانکہ 1871میں ہوئی مردم شماری کے وقت لنگایت کو علیحدہ مذہب کے لوگوں میں شامل کیاگیا تھا۔جمدار نے کہاکہ ’’ 1871کی مردم شماری میں لنگایت کو علیحدہ مذہبی شناخت دی گئی تھی ۔ مگر 1981کی مردم شماری میںیہ تبدیل کردگئی جس کے لئے اس وقت کے دیوان میسور کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘