قیدیوں کے حقوق

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ

(قسط دوم)

قیدی دوطرح کے ہوسکتے ہیں ایک وہ جو ظلما قید کرلئے گئے ہوں دوسرے وہ جو ظلم کی سزا میں قید ہوئے ہوں ۔ ظلما قید ہونے والے قیدیوں کی مدد اور ان پر احسان تو ایک فطری عمل ہے ،لیکن ثبوت ظلم کی سزا میں قید ہونے والے قیدیوں کے ساتھ بھی اسلام احسان وسلوک کی تعلیم دیتا ہے اس میں مسلم وغیر مسلم کی بھی کوئی قید نہیں ،اسلام نے ان قیدیوں کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری ازروئے قانون اسلامی حکومت پر عائد کی ہے ،اگر اسلامی ملک کے باشندے ان قیدیوں کو کھانا کھلاکر حسن سلوک کرتے ہیں تو گویا ان کا یہ کام اسلامی حکومت اور بیت المال کا معاون ہوتا ہے،دراصل ابتدائے اسلام میں قیدیوںکی بنیادی ضروریات کھانے پینے اور ان کی حفاظت عام مسلمانوں کی تفویض کی جاتی تھی ۔

پھر ان میں بھی قیدی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو دو ملکوں کی لڑائی وجنگ کی صورت میں گرفتار ہوتے ہیں،اسلام نے ایسے قیدیو ں کے ساتھ احسان وحسن سلوک کی ایک بے نظیر تاریخ بنائی ہے ، قیدیوںکے ساتھ رأفت ورحمت کا برتائو کرکے اس دنیا کو جو ظلم کی خوگر ہے احترام انسانیت کا عظیم درس دیا ہے۔
دوسرے وہ قیدی جو کسی جرم کے الزام میں کسی بھی ملک میں گرفتار ہوتے ہیں اور اسی ملک کے قید خانے میںمحبوس ہوتے ہیں،ان میں بھی دو طرح کے قیدی ہوتے ہیں ایک وہ جن پر الزام ہوتا ہے، لیکن جرم ثابت نہیں ہوتا، ان سے متعلق مقدمات زیر دورا ں رہتے ہیں اس لئے وہ قید وبند کی صعوبتیں جھیلتے رہتے ہیں،دوسرے وہ قیدی ہیں جن پر ثبوت وشہادت کے ساتھ جرم ثابت ہوچکا ہوتا ہے اور ملکی عدالت ان کیلئے سزا تجویز کرتی ہے ، حسب فیصلہ وہ قید خانے میں اپنی سزا کی میعاد پوری کرنے کیلئے قید رہتے ہیں،یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام نے بعض جرائم پر سخت سزائیں مقرر کی ہیں ان کی حیثیت گویا ایک طرح سے آپریشن کی ہے جیسے کوئی زخم عمل جراحت کے قابل ہو تو اس کو عمل جراحی سے گزارنا ہی اس کے حق میں باعث رحمت ہے ،تاکہ وہ آنے والے اور بڑے ضرر وتکلیف سے محفوظ رہ سکے ،اسی طرح معاشرہ میں ایسے مجرم جوسماج میں اپنے ظلم وجور اور گھنائونے جرم کے سبب فساد مچاتے ہیں اور معاشرہ کا سکون درہم برہم کرتے ہیں وہ اس قابل ہیں کہ ان کو ان کے جرم کی مناسبت سے سزا دی جائے جو ان کیلئے اور دیگر معاشرہ میں رہنے والے جرم پیشہ افراد کیلئے عبرت ونصیحت کا باعث ہو،اور معاشرہ جرائم سے پاک وصاف ہو ۔

اب رہا وہ قیدی جن پر صرف الزام ہو اور ان کا جرم ثابت نہ ہوسکا ہو اور وہ قیدی ثبوت جرم سے پہلے قید میں رہے ہوں ،اگر چہ کہ بعد میں ان پر جرم ثابت ہوگیا ہو ،ان ہر دو طرح کے قیدیوں پر عدالت کے فیصلہ سے قبل غیر انسانی طرزپر دی جانے والی سزائیں خود قابل جرم ہیں ،قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنے والے خود قابل سزاہیں ۔

کبھی حکومتیں اگر کسی کو اپنی راہ میں رکاوٹ تصور کرتی ہیں تو اس کو راستے کا روڑاسمجھ کر اپنی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں ،اس کیلئے وہ بلا کسی وجہ کسی کو گرفتار کرتی ہیں اور قید وبند کی ناروا صعوبتوں میں مبتلا کرتی ہیں ،ظاہر ہے جرم کے ثبوت کے بغیر اول تو قید کیا جانا ہی درست نہیں،ہاں البتہ کسی کے خلاف کسی جرم سے متعلق اگر کوئی واضح اشارات کی بنا شکوک وشبہات کو تقویت پہونچ رہی ہو تو ان کو تحقیق کی خاطر قید کیا جاسکتا ہے ، لیکن یہ قید طویل نہ ہو،بلکہ مختصر عرصہ میں نتیجہ پر پہنچ کر کما حقہ ثبوت فراہم نہ ہو تو ان کو رہائی دے دی جائے ،اگر جرم کے ثبوت کو تقویت مل رہی ہو کہ جس سے جرم ثابت ہونے کا یقین ہو تو اس کو قید رکھ کر عدالت سے جلد سے جلد فیصلہ کی کوشش کرتے ہوئے حسب فیصلہ اس کو سزا دی جانی چاہئے۔

دستور وقانون کے مطابق دنیا کے سارے ممالک میں انسانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اس لئے مذہبی اعتبار سے جو آزادی ان کوحاصل ہے اس میں کسی طرح کی رکاوٹ پیدا کرنا درست نہیں اس لئے مذہبی اعتبار سے ان کواپنے مذہبی اعمال کی قید خانوں میں بھی اجازت ہونی چاہئے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق عبادات کا اہتمام کرسکیں ،نیز جسمانی ، سماجی و اخلاقی جو اعتبارات عام انسانوں کیلئے قابل تسلیم سمجھے گئے ہیںوہ سارے حقوق قیدیوں کو بھی ضرور دئے جائیں۔ البتہ وہ قیدی جن پر جرم ثابت ہو کر حسب جرم وہ سزا کاٹ رہے ہوں ان کے ساتھ حسب فیصلہ ان کی سہولتوں میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے ۔بہر حال ہر صورت میں احترام انسانیت ملحوظ خاطر رکھنے کی اسلام ہدایت دیتا ہے۔

کچھ قیدی ایسے ہوسکتے ہیں جو باوجود مجرم ہونے کے اپنے جرم کا اعتراف آسانی سے نہیں کرتے اس لئے سچ اگلوانے کیلئے قیدیوں کو دھمکاناپڑے تو ایسے قیدیوں کو جن پر الزام کمزور بنیادوںپر لگا ہو تو ان کو ہلکے پھلکے انداز میں دھمکایا جاسکتا ہے ،اور جن پر الزام ثبوت جرم کے شواہد فراہم کرنے کے موقف میں ہو تو ان کو حقیقت حال جاننے کیلئے قابل برداشت حد تک دھمکایا جاسکتا ہے،لیکن اس مقصد کیلئے اکثر سنا جاتا ہے کہ بعض مواقع پر ان کو برہنہ کردیا جاتا ہے جو ان کے عزت نفس پر سخت حملہ ہے اور کوئی انسان اس طرح بے لباس ہونے کو پسند نہیں کرتا ،لیکن پھر بھی یہ عمل قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے اور انہیں مار پیٹ بھی کی جاتی ہے ،یہ بھی سنا جاتا ہے کبھی ان پر کتے چھوڑے جاتے ہیں اور الکٹرک شارٹ لگائے جاتے ہیں اور کبھی برف کی ٹھنڈی سلوں پر ان کو ڈالدیا جاتا ہے ۔ اگر واقعی اس طرح کا عمل قیدیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے تو ظاہر ہے اس کا کوئی جواز کسی مذہب کی رو سے ثابت نہیں ہوسکتا ،یہ سخت ترین غیر انسانی حرکتیں ہیںاس میں بسا اوقات انسانی اعضاء کے ناکارہ ہوجانے کا شدید خطرہ رہتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا اعصابی نظام درہم برہم ہوجائے اس لئے ایسی ساری سزائیں بے نہایت انسانیت سو ز اور گھنائونی ہیں ، عدالت کے فیصلہ سے قبل اس طرح کی سزا دینے والے خود عبرت ناک سزائوں کے مستحق ہیں کیونکہ دنیا کی کوئی عدالت جو احترام انسانیت کے انسانیت پسندانہ قانون کی علمبردار ہو، اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی۔

قیدیوں کو حفاظت کی غرض سے ہتکڑی پہنائی جاتی ہے اور کبھی پیروں میں بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیںیہ بھی سنا جاتاہے کہ بعض قیدیوں کو پوری طرح زنجیروں میں جکڑدیا جاتا ہے۔ظاہر ہے حفاظت کی غرض سے ہتکڑی پہنائی جائے تو اس کی اجازت ہوسکتی ہے نیزقیدی کی چالاکی اور اس کی تدبیر سے اس بات کا خطرہ ہو کہ وہ ہتکڑی سے آزاد ہوکر فرار ہوجائیگا تو دوسرے درجہ میں حفاظت کی غرض سے پیر میں بیڑی ڈالی جاسکتی ہے،لیکن یہ عمل بھی قید خانے میں مناسب نہیں معلوم ہوتا کیونکہ وہ پہلے تو خود قید میں ہے اور اس کے وہاں سے بھاگ جانے کے آثار بھی موہوم ہوتے ہیں ، البتہ قید خانے سے عدالت تک لیجانے کے راستے میں اس کے راہ فرار اختیار کرنے کا اندیشہ ہو تومذکورہ دونوں امور کی حسب ضرورت اجازت دی جاسکتی ہے اور یہ بھی ثبوت جرم میں ممد ومعاون ہونے کی حیثیت سے ان کو اختیار کیا جاسکتا ہے،اب رہاکسی قیدی کوپوری طرح زنجیروں میں جکڑ دینا یہ ایک دردناک پہلو ہے اس لئے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ،کیونکہ یہ بے جا ظلم ہے اور جو بے ضرورت بھی ہے ۔

کچھ قیدیوں کو قید تنہائی کی سزادی جاتی ہے ظاہر ہے قید تنہائی ایک کرب ناک سزا ہے جس کا ایک انسان متحمل نہیں ہوسکتا ،عدالت کو چاہئے کہ جرم کی مناسبت سے سزا تجویز کرے ، اور وہ جرائم جن کی سزائیں اسلام نے مقرر کی ہیں وہ اس قابل ہیں کہ دنیا کی ساری عدالتیں تعصب سے اونچے اٹھ کر ان کی حقیقتو ں کو تسلیم کرکے جاری کرنے کافیصلہ کرلیں تو انسانیت پر غیر ضروری ظلم وستم کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔دراصل اسلام کاقانون جرم کو ناپسند کرتا ہے،مجرم سے نفرت نہیں سکھاتا ،ثبوت جرم پر مجرم کیلئے اسلام جو سزاتجویز کرتاہے وہ جرم سے نفرت کی بنا ء پر ہے اور اس کا مقصود بھی معاشرہ کو امن وآمان مہیا کرنا ہے، اور اس میں دوسروں کیلئے عبرت کا پہلو بھی مضمر ہے ۔