قیدیوں کے حقوق قسط سوم

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ

قیدیوں سے اگر کام لیا جائے تو اس کے حدود وقیود کیا ہونی چاہئے چوںکہ کچھ قیدیوں سے جبرا کام لیا جاتا ہے اور ان کی بساط سے بڑھ کر ان پر کام کا بوجھ ڈالا جاتا ہے جب کہ عدالت سے ان کے حق میں کوئی ایسی سزا تجویز ہی نہیں ہوئی ہوتی ہے اس لئے عدالت کے فیصلہ سے قبل قیدیو ں پر کوئی مشقت ڈالی جائے یا کسی طرح کی سزا دی جائے تو دنیا کا کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتا ،

ہاںجن کے بارے میں عدالت نے ان کے جرم کی مناسبت سے قید بامشقت کی سزا تجویز کی ہے تو ان سے تو ان کے جر م کی پاداش میں ان سے کوئی کام ان کی برداشت کے مطابق لیا جاسکتا ہے۔ پھر کام بھی ایسے ہوں جو بامقصد ہوں اور جن سے کسی کو کچھ فائدہ پہونچ سکتا ہو ،جیسے کہ روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل یا کھانے پکانے اور ایسے متعلقہ کام جو قیدیوں کے فائدہ کیلئے ہوں یا ایسے کا م جس سے قیدی کی صلاحیت میں باعتبار علم یا باعتبار ہنر کوئی اضافہ ہوسکتا ہو تو وہ گویا سزا کی سزا بھی ہوگی اور اس سے خود قیدی کی ذات کو فائدہ ہوگا، قید خانے سے رہا ہونے کے بعد اس طرح کا فائدہ اس کو صحیح راستے پر لگا نے میں ممدومعاون ہوگا اور آئندہ اس کے جرائم کے ارتکاب کا امکان بھی موہوم ہوجائے گا ۔

جو قیدی جرم کی سزا میں عدالت کے فیصلہ کے بعد سزا کاٹ رہے ہوں ان کو بشرط انصاف وہی سزا ملنی چاہئے جس کو عدالت نے جرم کی مناسبت سے تجویز کیا ہے ،وہ قیدی کہ جن کا جرم ابھی عدالت سے ثابت نہیںہوا ، ان کو کسی طرح کی سزا دینے کے قید خانے کے ذمہ دار شرعا وقانونا مجاز نہیں ۔

جن قیدیوں کے مقدمات ابھی فیصل نہیں ہوسکے ہیں تو ان کوبھی طویل عرصہ تک قید وبند کی صعوبتوں سے گزارا جاتا ہے ، عدالت کے فیصلہ کے بغیر ہی ان کو ناروا سزائیں دی جاتی ہیں اس کی بھی کوئی قانون اجازت نہیں دیتا زیر سماعت قیدیو ں کو طویل عرصہ تک قید وبند میں رکھنا یہ خود انسانیت پر دردناک ظلم ہے ،اس لئے مقدمات کی سماعت میں تیزی لانی چاہئے تاکہ کم سے کم مدت میں انسانوں کو انصاف مل سکے۔ اسلام فوری انصاف کی ہدایت کرتا ہے ،اس پر عمل نہ کیا جائے تو اکثر ایسی صورت حال ظاہر ہوتی ہے کہ جس سے ان پر عائد فرد جرم سے بڑھ کر وہ سزا کاٹ چکے ہوتے ہیں پھر عدالت کے فیصلہ کے بعد مزید ان کو پھر اتنی ہی سزا بھگتنی پڑتی ہے جو کسی طرح بھی روا نہیں،اس طرح کی زیادتیوں سے مجرم کے اندر باغیانہ جذبات پر ورش پاتے ہیں ،بجائے جرم سے کنارہ کش ہونے کے وہ اپنی سزا کاٹ کرمزید جرائم کے ارادے سے قیدخانہ سے باہرنکلتا ہے اس لئے عدالت کے فیصلہ سے قبل فیصلہ کے مطابق ہی وہ سزا کاٹ چکا ہے تو اس کو فوری رہائی ملنی چاہئے ۔

کسی ملزم کو قید میں رکھا جائے اور اس پر جو الزام لگا تھا وہ الزام ہی رہاجو ثابت نہیں ہوسکا تو ایسی صورت میں اگر قیدی بڑی مدت تک جیل کاٹنے کے بعد باعزت بری کردیا گیا ہو تو وہ زمانہ قید میں ہونے والی ذہنی اذیت وجسمانی تکلیف وغیرہ کے ضمن میں دنیا کا قانون تو ہرجانہ طلب کرنے کی اجازت دیتا ہے،لیکن اس سے اس کو دی گئی تکلیف کا قطعی ازالہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ صدمات ذہنی وروحانی کرب اور عمر عزیز کا ایک بڑا قیمتی حصہ جو جیل کی نذر ہورہا ہے اس کی کوئی قیمت دنیا جہاں کی دولت بھی بطور بدل ثابت نہیں ہوسکتی ،اسی لئے اسلام احترام انسانیت کے پیش نظر حدود وقصاص اور دیگر جرائم سے متعلق جو ہدایات ان کیلئے دیتا ہے اور جو قوانین انسانوں کیلئے پیش کرتا ہے اس کو دستور وقانون کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے توانصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔

ایسے ملزم جو بذات خود اپنا دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ایسے ملزمین کو دنیا کا ہر قانون اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے الزامات کو رفع کرنے کیلئے کسی دوسرے فرد کو اپنا وکیل مقرر کریں تاکہ وہ وکیل اپنے مؤکل کے موقف کو ثابت کرسکے ۔ ہرانسان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے اگر کوئی قیدی اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کا اہل نہ ہو تو اس کو قانونایہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مقدمات کے سلسلہ میں وکیل سے رابطہ رکھے اور اس کی خدمات حاصل کرے ۔

قید ہونے والوں میں مردوں کے ساتھ ایک اچھی خاصی تعداد خواتین کی رہتی ہے ، خواتین چونکہ صنف نازک کہلاتی ہیں ،اسلام نے حالت جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے خصوصی احکامات دئے ہیں ،اگر وہ جرائم کی مرتکب ہوں ،اور جرم کے ثبوت پر وہ سزا کاٹ رہی ہوں تو ان کی پوری رعایت رکھنی چاہئے اور مردو ں کے بالمقابل ان پر کم سے کم بوجھ عائد کیا جانا چاہئے ،اگران میں سے کسی کے ساتھ ان کا شیر خوار بچہ بھی ہوتو اس کو ماں کے ساتھ جیل میں رہنے کا حق حاصل رہے گا۔کیونکہ شیر خوار کو ماں سے جدا نہیں کیا جاسکتا ۔ رسول پاک ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اس لئے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتااور کوئی بھی انسانی تہذیب اس کی اجازت نہیں دے سکتی ۔ البتہ اس بات کا اہتمام ضرور کیا جائے کہ بچہ کو صرف مدت رضاعت تک ماں کے ساتھ رکھا جائے اور جب رضاعت کی مدت ختم ہوجائے تو اس کو جیل کے ماحول سے نکال کر کہیں اور اس کی پرورش کا بندوبست کیا جائے اور اسلام نے اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات دی ہیں کہ جب ماں موجود نہ ہو تو اس کی پرورش درجہ بدرجہ اس کے قریبی اقرباء کریں جن میں اولیت نانی کو حاصل ہے ،نانی نہ ہو تو یہ حق دادی کو دیا جاسکتا ہے یہ بھی نہ ہو تو درجہ بدرجہ بہنوں ،بھانجیوں ،خالائوںاور پھوپیوں وغیرہ کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے اس میں بھی حقیقی رشتہ کی مقدم ہیں دوسرے درجہ میں علاتی تیسرے درجہ میں اخیافی رشتہ کی بہنوں ،بھانجیوں ، خالائوں اور پھوپیوںکا حق شریعت نے مانا ہے

اسلام پر یہ الزام ہے کہ وہ سخت سزائیں دیتا ہے ،حالانکہ اسلام نے جو سزائیں جرائم کی مناسبت سے طئے کی ہیں اس میں مجرم پر بھی احسان کی صورت رکھی گئی ہے ۔حدیث پاک میں ہے ۔ اذا قتلتم فاحسنوا قتلہ واذا ذبحتم فاحسنوامذبحہ ۔ کہ کسی طرح اس پر سزا کی منزل آسانی سے طئے ہوجائے اور دیکھنے والے کیلئے اس میں سخت وحشت رکھی گئی ہے کہ دیکھنے والے اس جرم کا ارتکاب نہ کریں ،جیسے کہ اسلامی قصاص ہے ،جوتلوار سے لیا جاتا ہے۔ ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب لعلکم تتقون۔ اور نئی تہذیب وتمدن نے سزا کی جو صورتیں اختیار کی ہیں جیسے پھانسی ،اور برقی کرسی کے استعمال وغیرہ سے دی جانے والی سزااس میں مجرم کو سخت تکلیف ہوتی اور دیکھنے والوں کیلئے اس میں اتنی وحشت نہیں ہوتی۔ المختصر قیدیوں کے بارے میں اسلام کا قانون ہی انسانیت کیلئے اور معاشرہ کیلئے رحمت کی ضمانت دیتا ہے،اور وہی دنیا سے جرائم کے خاتمے کا ضامن ہے ۔