قومی مفاد پر سیاست کو ترجیح

ہم ایسے شہر میں انصاف مانگنے آئے
جہاں پہ گرم ہے بازار چیرہ دستی کا
قومی مفاد پر سیاست کو ترجیح
جس وقت سے پلواما میں دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے اور ہمارے 40 سی آر پی ایف جوان شہید ہوئے اس وقت سے ملک میں ایک طرح کے غم و غصہ اور تشویش کا ماحول بنا ہوا ہے ۔ اس کے بعد جب ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں سرحد پار کرتے ہوئے دوسرے سرجیکل حملے کئے اس کے بعد ایک طرح کا ہیجان بھی پیدا ہوا ہے اور پاکستان میں ہمارے ایک بہادر ونگ کمانڈر کی حراست نے سارے ملک کو فکر و تشویش میں مبتلا کردیا تھا ۔ ان سارے واقعات کے باوجود بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ سیاست کرنے اور سیاسی مفادات کی تکمیل کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ انہیں قوم کی تشویش اور ملک میں پائے جانے والے ماحول کو بہتر بنانے سے زیادہ اس ماحول سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی فکر لاحق ہے ۔ انہیں یہی فکر لاحق ہے کہ وہ کسی طرح آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کریں اور ایک بار پھر وزارت عظمی پر فائز ہوجائیں۔ یہ ترجیح ہر سیاسی لیڈر کی ہوتی ہے اور ہر جماعت چاہتی ہے کہ اسے مسلسل اقتدار حاصل ہوتا رہے تاہم اس کا فیصلہ ملک کے عوام اپنے ووٹ سے کرتے ہیں۔ سیاسی کامیابی کیلئے ملک کے مفادات کو پس پشت نہیں ڈالا جانا چاہئے ۔ وزیر اعظم اس وقت بھی تشہیری شوٹنگ میں مصروف تھے جب پلواما میں دہشت گرد حملہ ہوا تھا اور ہمارے جوان شہید ہوئے تھے ۔ اس حملے کے دو گھنٹوں بعد تک نریندر مودی تشہیری شوٹنگ میں اور تصویر کشی میں مصروف تھے ۔ اس کے بعدجب سرجیکل حملہ ہوا تو اس کا بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہمارا ایک بہادر پائلٹ پاکستان کی تحویل میں ہے اور اس کی رہائی کیلئے سارا ملک متفکر تھا ۔ پاکستان نے اس کو رہا کرنے کا اعلان کردیا اور آج جمعہ کو اس کی واپسی کیلئے جب سارا ملک منتظر تھا اس وقت بھی نریندر مودی سیاسی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہیں۔ یہ تاثر مل رہا تھا کہ مودی کو ونگ کمانڈر کی رہائی سے زیادہ اس کے نام سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں دلچسپی ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے وہ بھی وزیر اعظم کی سیاسی مصروفیات کی مدافعت میں میدان میں اتر آئی ہے ۔
ہر سیاسی لیڈر سیاست کرتا ہی ہے لیکن اس کیلئے قومی اہمیت کے مسائل کو ذریعہ نہیں بنایا جانا چاہئے ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ پڑوسی ملک کی دہشت گردانہ ریشہ دوانیوں پر سارا ملک متفکر ہے اور اپنے بہادر اور شہید جوانوں کو خراج پیش کر رہا ہے تو ان کے نام پر سیاست افسوسناک ہے ۔ ہماری سکیوریٹی فورسیس اور افواج کے کارناموں کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی کھلی تائید و حمایت کی جا رہی ہے ۔ دہشت گردوں کو مدد فراہم کی جا رہی ہے اور ان کے ذریعہ ہندوستان کی سرزمین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ ہمارے جوان شہید ہوئے ہیں۔ اس حملے کے بعد سارے ملک میں اتحاد کی فضاء پیدا ہوئی ہے ۔ ہر گوشے سے دہشت گردانہ حملوں کی مذمت کی جا رہی ہے اور انتقامی کارروائی کے مطالبات ہو رہے تھے ۔ وزیر اعظم نے اس پر سکیوریٹی فورسیس کو مکمل اختیار سونپ دیا تھا ۔ یہ بھی قابل قدر فیصلہ تھا ۔ اس فیصلے کے بعد ہماری سکیوریٹی فورسیس نے بھی یہ ثابت کردیا کہ وہ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں ۔ سارے ملک میں اس کارروائی پر جشن کا ماحول پیدا ہوگیا تھا ۔ دوسرے دن اچانک ہی پتہ چلا کہ ہمارا ایک بہادر پائلٹ پاکستان کے قبضے میں ہے ۔ اس پر سارا ملک متفکر ہوگیا اور اس کی رہائی کیلئے سارے ملک دعائیں کر رہا تھا ۔ بالآخر پاکستان ہمار ے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ابھینندن ورتمان کو رہا کرنے پر مجبور ہوگیا ۔
ان ساری کارروائیوں میں کہیں بھی سیاست کا کوئی عنصر نہیں تھا ۔ سیاست کو قومی اہمیت کے حامل مسائل سے الگ کیا جانا چاہئے ۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی پلواما حملے کے بعد اور پھر سرجیکل حملوں کے بعد بھی حکومت کے ساتھ مکمل تائید و حمایت کا اظہار کیا ۔ ملک کے سارے عوام نے ایک آواز ہوتے ہوئے حکومت کی تائید کی کہ وہ جو مناسب سمجھے کارروائی کرے اور ہماری سکیوریٹی فورسیس نے ملک کے عوام کے جذبات کی تین تکمیل کرتے ہوئے پاکستان کو سبق بھی سکھایا ۔ اس کے باوجود اگر ایسے امور پر سیاست ہوتی ہے تو یہ افسوسناک ہے ۔ چاہے بی جے پی ہو چاہے اپوزیشن جماعتیں ہو یا کوئی اور لیڈر ہو سبھی کو اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ قومی مفاد پر سیاسی مفاد کو ترجیح ہرگز نہ دی جائے ۔