قومی سطح پر محاذ آرائی کی کوششیں

سچ تو یہ ہے کہ جستجو تیری
کبھی پابندِ رہ گزر نہ ہوئی
قومی سطح پر محاذ آرائی کی کوششیں
ملک میںجیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے تقریبا تمام سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو اس کیلئے تیار کرنے ک حکمت عملی میں جٹ گئی ہیں۔ کچھ جماعتیں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر محاذ آرائی کیلئے بھی کوشاں ہیں اور اس کیلئے عملی اقدامات کا آغاز بھی کردیا گیا ہے ۔ ایک طرف ٹی آر ایس کے سربراہ و چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے قومی سطح پر مخالف کانگریس و مخالف بی جے پی محاذ بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلہ میںا نہوں نے کولکتہ کا دورہ کرتے ہوئے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی سے ملاقات بھی کی تھی ۔ بات چیت کے بعد انہوں نے ادعا کیا تھا کہ کانگریس اور بی جے پی کے بغیر محاذ بنانے کی ان کی کوششوں کو ممتابنرجی کی تائید حاصل ہے تاہم دو دن قبل ممتابنرجی دہلی پہونچ گئیں اور وہاں انہوں نے کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سونیا گاندھی کی مزاج پرسی اور عیادت کیلئے گئی تھیں تاہم اس موقع پر سیاسی بات چیت بھی ہوئی ہے ۔ اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ممتابنرجی کو قومی سطح پر جس متحدہ اپوزیشن کی ضرورت ہے اس کا احساس ہے اور وہ کانگریس سے رشتوں کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ وہ سمجھتی ہیں کہ قومی سطح پر کانگریس کے بغیر کوئی محاذ بنایا جاتا ہے تو اس سے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد ہی ہوگی اور ایسا محاذ آئندہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کریگا ۔ ممتابنرجی کا کہنا تھا کہ راجیو گاندھی کے دور سے ہی ان کے کانگریس سے تعلقات اچھے رہے ہیں اور اب بھی ان کے تعلقات بہترین ہیں۔ اسی طرح اب این سی پی کے سربراہ شرد پوار بھی ایک محاذ بنانے کی کوششوں میں جٹ گئے ہیں۔ ان کا بھی انداز چندر شیکھر راؤ جیسا ہی نظر آرہا ہے ۔ وہ بھی کانگریس کو نظر انداز کرتے ہوئے محاذ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی کو شکست دیتے ہوئے اقتدار سے بیدخل کرنا کانگریس کے بغیر بننے والے کسی بھی محاذ کیلئے ممکن اور آسان نہیں رہ جائیگا ۔ اس حقیقت کا شرد پوار جیسے سینئر اور حالات سے واقف سیاستدان کی جانب سے اعتراف کیا جانا ضروری ہے ۔ چیدہ چیدہ جماعتیں مل کر اگر کوئی محاذ بناتی ہیں تو اس سے بی جے پی سے مقابلہ کی بجائے بی جے پی کی مدد ہوگی ۔
خاص طور پر ان جماعتوں کیلئے جو کانگریس سے علیحدہ ہوکر الگ شناخت اختیار کرچکی ہیں یہ ضروری ہے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کی ضرورت کو محسوس کریں۔ باہمی اختلافات کو ممکنہ حد تک حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کریں اور اگر کچھ مسائل اور اختلافات باقی رہ بھی جاتے ہیں تو انہیں وسیع تر قومی مفاد کیلئے پس پشت ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی مثال اترپردیش میں سماجوادی پارٹی امیدواروں کو ضمنی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی کی تائید کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔ مایاوتی نے اپنی کٹر اور روایتی حریف کے امیدواروں کی تائید کرتے ہوئے جس فراخدلی اور بی جے پی سے مقابلہ میں جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے تمام سیاسی جماعتوں کو مثال اور سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ چھوٹی اور علاقائی جماعتوں کا وجود اپنی جگہ مسلمہ ہے اور انہوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں قومی جماعتوں کو جگہ بنانے کا موقع نہیں دیا ہے لیکن اگر یہ جماعتیں چیدہ چیدہ رہتی ہیں اور ایک جٹ کسی قومی جماعت کی سرپرستی میں نہیں ہوپاتی ہیں تو اس سے خود ان کے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس طرح سے بی جے پی پہلے کانگریس کو ختم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئی ہے اس سے دوسری جماعتوں کو بھی خطرہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر اس صورت میں جب خود بی جے پی کی کچھ حلیف جماعتیں اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس سے دوری اختیار کر رہی ہیں علاقائی جماعتوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے ۔
چاہے چندر شیکھر راؤ ہوں یا پھر شرد پوار چاہے کمیونسٹ پارٹیاں ہوں یا دوسری جماعتیں ہوں سبھی کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ علاقائی سطح پر اثر کم ہونے کے باوجود ملک کی اہم ریاستوں میں کانگریس اب بھی ایک طاقت بن کر ابھر سکتی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ خاص طور پر راجستھان ‘ مدھیہ پردیش جیسی ریاستوں میں کانگریس بی جے پی کو کانٹے کی ٹکر دے رہی ہے ۔ کرناٹک میں بھی کانگریس بی جے پی کے بڑھتے قدم روک سکتی ہے ۔ تاہم علاقائی جماعتوں کو اس میں رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مخالفین کو ہر ریاست میں نیچا دکھانے ان جماعتوں کو سرگرم ہوجانا چاہئے ۔ جب تک علاقائی جماعتیں اپنے حلقہ اثر کو مستحکم رکھتے ہوئے قومی جماعتوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہونگی اس وقت تک بی جے پی سے مقابلہ آسان نہیں ہوگا ۔ اب جبکہ آئندہ انتخابات کیلئے ایک سال کا وقت ہے کانگریس کے بشمول سبھی جماعتوں کو ایک عظیم تر محاذ بنانے کیلئے آگے آنے کی ضرورت ہے ۔